کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 272
۹۔ حافظ زرکشی رحمہ اللہ :
’’اس عمومی قاعدہ سے وہ مدلس مستثنیٰ ہے جو صرف ثقہ سے تدلیس کرتا ہے۔ اس کی معنعن روایت مقبول ہوگی، اگرچہ وہ صراحتِ سماع نہ کرے۔ جیسے سفیان بن عیینہ ہیں۔‘‘ (النکت للزرکشي: ۱۸۹)
۱۰۔ امام ابن ناصر الدین دمشقی (م۸۴۲ھ):
’’اس سند میں سفیان (بن عیینہ) کا قول: عن عمرو بن دینار ہے۔ یہ معنعن ہے۔ اس بابت اختلاف ہے کہ وہ (عنعنہ) اتصال پر محمول کیا جائے گا یا نہیں؟ جمہور کے نزدیک وہ متصل اور قابلِ احتجاج ہے بہ شرط کہ راوی کی عدالت اور جس سے وہ معنعن بیان کرتا ہے اس سے ملاقات ثابت ہو۔ یہ سفیان عن عمرو کی روایت میں موجود ہے۔ ان کا عنعنہ یہاں نقصان دہ نہیں اگرچہ وہ مدلس ہیں۔ ان کی تدلیس تدلیسِ مبیّن (واضح) ہے۔ مبیّن کی وجۂ تسمیہ یہ ہے کہ مدلس سے جب اس بابت استفسار کیا جاتا ہے تو وہ (ساقط راوی کو) بیان کردیتا ہے۔ ابو حاتم ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’ابن عیینہ کی کوئی ایسی روایت نہیں، جس میں انھوں نے تدلیس کی ہو، مگر اسی روایت میں انہوں نے اپنے جیسے ثقہ راوی سے صراحت ِ سماع کردی تھی۔‘‘
(مجالس في تفسیر قولہ تعالیٰ: لقد من اللّٰه علی المؤمنین۔۔۔ لابن ناصر الدین: ۱۲۸، المجلس الخامس)
ابن ناصر الدین رحمہ اللہ کا دوسرا قول ہے:
’’سفیان بن عیینہ کی تدلیس (عنعنہ) غیر مؤثر ہے۔ ان کا اس حدیث کو معنعن بیان کرنا مضر نہیں۔‘‘
(مجالس: ۴۵۹، المجلس الرابع والعشرون)