کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 271
تدلیس کی ہے جو صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں۔ محدثین کو اس بارے میں شک نہیں (انھیں تدلیس شدہ روایات کا بخوبی علم ہے) ۔۔۔ جمہور اس (مدلس کی معنعن روایت) کو قبول کرتے ہیں، جن کے بارے میں معروف ہے کہ وہ صرف ثقہ سے روایت (تدلیس) کرتا ہے۔‘‘ (مقدمہ إکمال المعلم للقاضی عیاض: ۳۴۸، ۳۴۹)
۵۔ حافظ ذہبی صاحبِ استقراے تام رحمہ اللہ :
’’ان (ابن عیینہ) سے احتجاج پر امت کا اجماع ہے۔ وہ مدلس تھے مگر معروف ہے کہ وہ صرف ثقہ سے تدلیس کرتے تھے۔‘‘
(میزان الاعتدال: ۲/ ۱۷۰، سیر أعلام النبلاء: ۷/ ۲۴۲)
۶۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ :
’’دوسرا طبقہ ان مدلسین کا ہے جن کی تدلیس کو ائمہ نے برداشت کیا ہے ۔۔۔ یا وہ صرف ثقہ سے تدلیس کرتے ہیں جیسے ابن عیینہ ہیں۔‘‘
(طبقات المدلسین: ۱۲)
۷۔ حافظ دارقطنی رحمہ اللہ :
’’وہ ثقات سے تدلیس کرتے ہیں۔‘‘ (سؤالات الحاکم للدارقطنی: ۱۷۵)
لہٰذا ان کا عنعنہ مقبول ہے۔ بہ شرط کہ اس میں تدلیس نہ ہو۔ بنا بریں حافظ دارقطنی نے ان کی معنعن سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
(سنن الدارقطني: ۱/ ۳۵۰، حدیث: ۴)
۸۔ حافظ ابن العراقی رحمہ اللہ :
’’ان کے مدلس ہونے کے باوجود محدثین کا ان کے عنعنہ کو قبول کرنے پر اتفاق ہے۔ جیسا کہ متعدد محدثین نے نقل کیا ہے۔‘‘
(المدلسین: ۵۳۔ ۵۴)