کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 270
۱۰۔ دکتور ماہر یاسین فحل (الجامع في العلل والفوائد: ۱/ ۲۹۰) وغیرہ کی بھی یہی رائے ہے۔ اس اعتبار سے ابن عیینہ کا عنعنہ مقبول ہے۔ دوسرا جواب: ابن عیینہ کا عنعنہ بالاتفاق مقبول ہے: ۱۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ : ’’اگر مدلس کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ اس نے صرف ثقہ ہی سے تدلیس کی ہے۔ پھر اگر اسی طرح ہے تو اس کی روایت مقبول ہے۔ اگرچہ وہ سماع کی تصریح نہ کرے۔ اور یہ بات دنیا میں سواے سفیان بن عیینہ اکیلے کے کسی اور کے لیے ثابت نہیں، کیونکہ وہ تدلیس کرتے تھے اور صرف ثقہ متقن ہی سے تدلیس کرتے تھے۔ سفیان بن عیینہ کی ایسی کوئی روایت نہیں جس میں انھوں نے تدلیس کی ہو، مگر اسی روایت میں انھوں نے اپنے جیسے ثقہ راوی سے سماع کی صراحت کردی تھی۔‘‘ (مقدمۃ الإحسان: ۱/ ۱۶۱) امام ابن حبان رحمہ اللہ کا یہ قول متعدد علما نے ذکر کیا ہے۔ ۲۔ حافظ ابو الفتح ازدی رحمہ اللہ : ’’ہم ابن عیینہ جیسوں کی تدلیس (عنعنہ) قبول کرتے ہیں۔‘‘(الکفایۃ: ۲/ ۳۸۷، رقم: ۱۱۶۵) ۳۔ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ : ’’محدثین کے بہ قول ابن عیینہ کی تدلیس (معنعن روایت) مقبول ہے۔‘‘(التمہید: ۱/ ۳۱) ۴۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ : ’’جن جن روایات میں ابن عیینہ اور ثوری وغیرہ اور اُن مدلسین نے