کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 268
ہیں جس میں وہ کہتے ہیں: ’’سمعت الحسن‘‘۔‘‘(الجعدیات: ۳۲۷۱)
گویا ابن مہدی رحمہ اللہ کے نزدیک مبارک، حسن بصری سے تدلیس کرتے ہیں۔ بنابریں انھوں نے روایت کی صحت کے لیے سماع کی قید لگائی ہے۔
ائمۂ فن کے ان متعدد اقوال سے معلوم ہوا کہ وہ صراحت ِ سماع کی قید وہیں لگاتے ہیں، جہاں راوی کثیر التدلیس ہوتا ہے۔ ہمارے علم میں کوئی ایسا قول موجود نہیں جس میں متقدمین قلیل التدلیس کے بارے میں یہ اصول بیان کریں۔ اگر کسی کے پاس ایسی نص موجود ہے تو اسے ضرور راہ نمائی کرنی چاہیے۔ ورنہ یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ متقدمین ائمۂ فن کے ہاں قلیل التدلیس راوی کا عنعنہ مقبول ہے۔ بشرط کہ اس میں تدلیس نہ ہو۔
ابن عیینۃ
جو مدلس ثقہ سے تدلیس کرتے ہیں ان میں بہ طور خاص ابن عیینہ کا نام ذکر کیا جاتا ہے، کہ ان کا عنعنہ مقبول ہے۔ مگر ایک صاحب رقمطراز ہیں: ’’ان کی معنعن روایت ناقابلِ اعتماد ہے۔ کیونکہ وہ غیرثقہ سے بھی تدلیس کرتے ہیں، لہٰذا ثقہ سے تدلیس کرنے والا قاعدہ کلیہ نہیں، اغلبیہ ہے۔‘‘
حالانکہ قواعد ہوتے ہی اغلبی ہیں۔ جس سے کچھ جزئیات خارج ہوتی ہیں۔ جنھیں شاذ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اور ان کا حکم کالعدم ہوتا ہے۔ محدثین کے نزدیک جو مدلس ثقات سے تدلیس کرے اس کا عنعنہ مقبول ہے۔ ملاحظہ ہو۔
پہلا جواب: ثقات سے تدلیس کا حکم:
۱۔ امام بزار رحمہ اللہ :
’’جو ثقات سے تدلیس کرے اس کی تدلیس (عنعنہ) اہلِ علم کے ہاں