کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 266
صراحتِ سماع کا کثیر التدلیس سے مطالبہ: متقدمین ائمہ کے نقد و تبصرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سماع کا ثبوت کثیر التدلیس راوی سے طلب کرتے ہیں۔ قلیل التدلیس سے سماع کی توضیح وہ اسی وقت چاہتے ہیں جب انھیں تدلیس کا شبہ گزرتا ہے۔ ذیل میں ائمۂ کرام کے اقوال مذکور ہیں: ۱۔ امام علی بن مدینی رحمہ اللہ : ’’جب تدلیس اس پر غالب ہو تب وہ حجت نہیں، یہاں تک وہ اپنے سماع کی وضاحت کرے۔‘‘ (الکفایۃ: ۲/ ۳۸۷، التمھید: ۱/ ۱۸) ۲۔ امام مسلم رحمہ اللہ : ’’محدثین نے جن راویوں کا اپنے شیوخ سے سماع کا تتبع کیا ہے وہ ایسے ہیں جو تدلیس کی وجہ سے شہرت یافتہ ہیں۔ وہ تبھی ان کی روایات میں صراحتِ سماع تلاش کرتے ہیں، تاکہ ان سے تدلیس کی علت دور ہوسکے۔‘‘ (مقدمۃ صحیح مسلم: ۲۲) ۳۔ امام احمد رحمہ اللہ : ’’ابن اسحاق بہ کثرت تدلیس کرتے ہیں۔ میرے نزدیک ان کی سب سے عمدہ حدیث وہ ہے جس میں وہ ’’أخبرني‘‘ یا ’’سمعتُ‘‘ کہے۔‘‘ (الجرح والتعدیل: ۷/ ۱۹۴، مسند یعقوب بن شیبۃ: ۴۰، فقرۃ: ۱۰، تلخیص: أحمد بن أبي بکر الطبراني الکاملي۸۳۵ھـ) امام صاحب کے اس قول پر غور کیجیے کہ انھوں نے ’’أخبرني وسمعت‘‘ کو ’’ھو کثیر التدلیس جدًا‘‘ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ جس سے یہ بات خود بہ خود ظاہر ہوتی ہے کہ سماع کی صراحت ’’کثیر التدلیس‘‘ سے طلب کی جائے گی۔