کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 265
امام ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ حدیث باطل ہے۔ ابوتقی نے بقیہ سے صحیح حفظ نہیں کی۔ بقیہ اس جیسی حدیث میں سماع کی صراحت نہیں کرتا۔‘‘(العلل لابن أبي حاتم: ۱۱۵۱)
امام ابوزرعۃ الرازی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو منکر قرار دیا ہے۔(سؤالات البرذعي: ۲/ ۵۸۵، ۵۸۶)
کتبِ جرح و تعدیل میں اس قسم کی متعدد مثالیں پائی جاتی ہیں کہ مدلس کی تصریحِ سماع کے باوجود وہ حدیث ضعیف رہتی ہے۔ کیونکہ تصریحِ سماع کرنے والے راوی سے صراحتِ سماع غلطی اور خطا کا نتیجہ ہوتی ہے۔
الحکم للأکثر:
قواعد کی تکوین اغلبیت کے پیشِ نظر ہوتی ہے۔ شذوذ اور تفردات عمومی قاعدہ سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ مصطلح الحدیث کی زبان میں اسے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ محدثین راویان کے ثقہ اور صدوق ہونے کے فیصلے کے ساتھ ساتھ ان کے دیگر اوصاف، مثلاً: ’’ثقۃ ربما أخطأ، ربما وھم، لہ أوھام، یھم قلیلا، یخطیٔ، قلیلا‘‘ وغیرہ ذکر کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ ایسے اوصاف صدوق راوی کے ساتھ بھی ذکر کرتے ہیں۔ یہ بات مخفی نہیں کہ محدثین ایسی حدیث کو صحیح یا حسن قرار دیتے ہیں۔ اس سے وہی روایت مستثنیٰ کرتے ہیں جس میں ثقہ یا صدوق سے وہم یا خطا ثابت ہو جائے۔ وہ عمومی قاعدے کے پیشِ نظر کثیر التدلیس کی معنعن روایت مسترد کرتے ہیں۔ قلیل التدلیس کی معنعن روایت قبول کرتے ہیں۔ بشرط کہ اس میں تدلیس نہ ہو۔ اگر ثقۃ ربما أخطا کی روایت صحیح ہے تو ثقۃ ربما دلس کی معنعن روایت کیوں کر صحیح نہیں ہوسکتی؟ اور اس کی تدلیس شدہ روایت اس عمومی قاعدے سے مستثنیٰ کیوں نہیں ہوسکتی؟