کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 264
صیغوں کو تخفیفاً ’’عن‘‘ سے بیان کردیتا ہے۔ بادیُ النظر میں شبہ ہوتا ہے کہ مدلس نے سماع کی صراحت نہیں کی۔ یہ درست ہے کہ مدلس کی تدلیس عنعن، قَالَ، ذَکَرَ کے الفاظ سے ظاہر ہوتی ہے۔ مگر یہ لازمی نہیں کہ جب وہ عنعنہ کرے تو بہرحال تدلیس بھی کرے گا۔ مدلس کے عنعنہ کے بارے میں ذہبیِ عصر معلمی رحمہ اللہ نے نہایت لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے: ’’اس باب میں عنعنہ مشہور ہے۔ باوجود کہ کلمہ ’’عن‘‘ اس راوی کا نہیں جس کا نام اس سے پہلے مذکور ہے، بلکہ اس سے نچلے راوی کا ہے۔ جیسے اگر ہمام کہیں: ’’حدثنا قتادۃ عن أنس‘‘۔ اس میں کلمہ ’’عن‘‘ ہمام کا ہے۔ کیونکہ وہ (عن) ’’حدثنا‘‘ (فعل) سے متعلق ہے۔ ’’حدثنا‘‘ کا قائل ہمام ہے۔‘‘ (التنکیل: ۱/ ۸۲) دکتور خالد بن منصور نے چند امثلہ ایسی ذکر کی ہیں جن میں راویان سماع کے صیغوں کو ’’عن‘‘ سے بیان کرتے ہیں۔ (موقف الإمامین، ص: ۶۵) بایں وجہ تدلیس کا حکم لگانے سے قبل انتہائی غوروفکر اور ائمۂ کرام کے اقوال کا تتبع ضروری ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ممکن ہوتا ہے کہ مدلس سماع کی صراحت نہیں کرتا، جبکہ اس سے روایت کرنے والے کمزور حفظ والے راوی اسے صراحتِ سماع سے بیان کرتے ہیں۔ جیسا کہ بقیہ بن ولید (مدلس) کے شاگرد تھے۔ ’’أبوتقی ہشام بن عبدالملک نے بقیۃ قال: حدثني ثور بن یزید، عن خالد بن معدان، عن معاذ بن جبل مرفوعاً حدیث: إن أطیب الکسب کسب التجار…‘‘ بیان کی۔