کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 263
اسی طرح ان کی دوسری کتاب مطبوع ہے: ’’موقف الامامین من اشتراط اللقیا والسماع في السند المعنعن بین المتعاصرین‘‘ جس کے صفحات کی تعداد (۵۳۵) ہے۔
۱۳۔ شیخ ابو عبیدۃ مشہور بن حسن نے انتہائی مفصل شرح ’’بھجۃ المنتفع‘‘ لکھی۔ جس کا متن امام ابوعمرو الدانی کی مصطلح کی کتاب ہے۔ شارح نے ۱۱۹ صفحات یعنی صفحہ ۳۷۰سے ۴۸۹ پر مسئلۂ تدلیس و ارسال بیان کیا ہے۔
۱۴۔ علامہ محمود سعید ممدوح نے ’’تنبیہ المسلم إلی تعدی الألبانی علی صحیح مسلم‘‘ کتاب لکھی۔ غرض کہ جنھوں نے بھی مسئلہ تدلیس پر لکھا، انھوں نے قلت و کثرت کا اعتبار ضرور کیا۔
تقویت کی یہ نسبت امام شافعی رحمہ اللہ کے ہمنواؤں میں غالباً دکھلائی نہیں دیتی، بلکہ ان میں سے بعض تو مسئلے کی حساسیت سے بے خبر ہیں۔ واللّٰہ المستعان!
بنابریں ان لوگوں کی بات مقدم ہوگی، جنھوں نے اس فن کا سیر حاصل دراستہ کیا۔ پھر اس بابت کتب تصنیف کیں، نہ کہ ان لوگوں کی جو مصطلح کی ابجد سے بھی شاید ناواقف ہوں۔ ہمیں دورِ رواں میں بھی کوئی مستند عالم دین ایسا نہیں ملتا جو امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کا ہمنوا ہو، بلکہ اکثر اس کے مرجوح ہونے کے قائل ہیں۔
’’عن‘‘ کا قائل کون؟
علما کے اقوال، تعاملات اور اسانید کا دراستہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر طور پر ’’عن‘‘ کا قایل مدلس کا شاگرد یا اس کا شاگرد ہوتا ہے، مدلس نہیں۔ یعنی مدلس یا کوئی عام راوی حدیث بیان کرتے ہوئے ’’حدثنا ‘‘ یا ’’قال‘‘ کہتا ہے۔ بسا اوقات وہ سماع کی صراحت کرتا ہے اور کبھی نہیں، مگر مدلس کا شاگرد ان دونوں