کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 261
معلوم ہوا کہ مولانا بھی تدلیس کی قلت و کثرت کی تأثیر کے قایل ہیں۔ ورنہ دوسرے طبقے کی تعیین چہ معنی دارد!
متخصصین کی آرا:
ہمارے موقف کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ جن اہلِ علم نے تدلیس کی قلت و کثرت کا امتیاز کیا ہے یا مدلسین کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا ہے، انھیں اس فن میں اختصاص حاصل ہے۔ اور انھوں نے اس بابت مستقل کتب تصنیف کی ہیں۔ بعض نے متعدد صفحات میں اسے بیان کیا ہے۔
۱۔ حافظ علائی رحمہ اللہ نے ’’جامع التحصیل في أحکام المراسیل‘‘ میں مسئلۂ تدلیس و ارسال بیان کیا ہے۔ مدلسین کی طبقاتی تقسیم ’’من حیث القبول والرد‘‘ کے موجد یہی ہیں۔ اور یہ اس فن کی بنیادی کتاب شمار ہوتی ہے۔
۲۔ علامہ برہان الدین الحلبی رحمہ اللہ نے ’’التبیین في أسماء المدلسین‘‘ میں بھی حافظ علائی رحمہ اللہ کی اس تقسیم کو درست قرار دیا ہے۔ اور فرمایا ہے:
’’أنھم لیسوا علی حدٍ واحدٍ‘‘
’’ان مدلسین کی پوزیشن ایک جیسی نہیں۔‘‘
۳۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب ’’تعریف أھل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس‘‘ شہرئہ آفاق ہے۔ جس کا مختصر نام طبقات المدلسین ہے۔ ان کا ماخذ جامع التحصیل ہے۔
۴۔ شیخ صالح بن سعید عومار الجزائری نے ’’التدلیس وأحکامہ، وآثارہ النقدیۃ‘‘ لکھی۔ جو ۴۰۳ صفحات پر مشتمل ہے۔
۵۔ شیخ ناصر بن حمد الفہد کی کتاب ’’منھج المتقدمین في التدلیس‘‘ بھی معروف ہے۔ جس کے مقدمہ کے علاوہ ۲۱۵ صفحات ہیں۔