کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 259
اسے صحیح یا حسن قرار دیا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
’’حضرت اسود بن عامر سے ایک اور اثر مصنف ابن ابی شیبۃ (۱/ ۳۷۶) میں موجود ہے، لیکن اس میں اسماعیل بن ابی خالد ہے جو طبقۂ ثانیہ کامدلس ہے۔ جیسا کہ ابراہیم نخعی اور سفیان ثوری ہیں اور ایک اثر مصنف عبدالرزاق (۲/ ۱۳۸) اور ابن ابی شیبۃ (۱/ ۳۷۷) میں اسی مفہوم کا منقول ہے۔ مگر سند میں الأعمش مدلس ہے اور ابراہیم بھی اسے معنعن روایت کرتے ہیں۔ ان دونوں طریق سے معلوم ہوتا ہے کہ اسود کا یہ اثر صحیح یا حسن ہے۔‘‘ (توضیح الکلام: ۱۰۲۶، ۱۰۲۷)
آپ نے ملاحظہ کیا کہ استاذِ گرامی اسود کے اثر، جسے ابراہیم نخعی معنعن بیان کرتے ہیں، کو دوسندوں کی وجہ سے صحیح یا حسن قرار دے رہے ہیں۔ بالفاظِ دیگر ابراہیم نخعی اور اسماعیل بن ابی خالد کا عنعنہ ان کے نزدیک مضر نہیں، کیونکہ وہ دونوں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی طبقاتی تقسیم کے مطابق طبقۂ ثانیہ کے مدلس ہیں، جو قلیل التدلیس ہیں۔ نخعی اور ابن ابی خالد کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے قبل حافظ علائی رحمہ اللہ نے درجۂ دوم کا مدلس قرار دیا ہے۔ (جامع التحصیل: ۱۳۰)
مذکورہ بالا سطور سے معلوم ہوا کہ استاذ صاحب کا مسئلۂ تدلیس کی بابت وہی موقف ہے جس کی صراحت ائمۂ متقدمین میں سے علی بن مدینی رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ نے کی ہے۔ ان دونوں کے اقوال سے معلوم ہوا کہ صراحتِ سماع کثیر التدلیس سے مطلوب ہے۔ قلیل التدلیس کا عنعنہ مقبول ہے، متقدمین اور متأخرین قلت اور کثرتِ تدلیس کے حکم کے مابین امتیاز کے قایل تھے۔ استاذ صاحب مسلکِ محدثین کے ترجمان اور امین ہیں۔