کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 257
قول میں قتادۃ کے نام کی صراحت موجود ہے اور وہ دونوں کثیر التدلیس ہیں۔ جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: قتادہ : قتادۃ معروف مدلس ہیں۔ استاذ صاحب نے حافظ ذہبی رحمہ اللہ سے ’’مدلس معروف‘‘، علامہ تقی الدین رحمہ اللہ سے ’’ھوإمام في التدلیس‘‘ علامہ ابن مغلس سے ’’ھو کثیر التدلیس‘‘ علامہ ابن الترکمانی سے ’’مشھور بالتدلیس‘‘ کے الفاظ قتادۃ کے بارے میں نقل کیے ہیں۔ (توضیح:۶۹۰) اس پر مستزاد یہ کہ حافظ ابن حجر، حافظ علائی رحمہما اللہ اور ڈاکٹر مسفر نے اسے تیسرے طبقے میں ذکر کیا ہے۔ (الطبقات لابن حجر، ص: ۵۸، جامع التحصیل للعلائي: ۱۳۰، التدلیس: ۳۳۰۔ ۳۳۳) اعمش: اعمش بھی کثیر التدلیس ہیں۔ گو استاذِ گرامی نے توضیح الکلام کے محولہ مقام پر اس کا کثیر التدلیس ہونا بالصراحت ذکر نہیں کیا، مگر اس کے عنعنہ کو ضعیف ضرور قرار دیا ہے۔ جو مشعر ہے کہ وہ کثیر التدلیس ہے یا اس کی یہ مخصوص روایت تدلیس شدہ ہے۔ اکثر علما کے ہاں اعمش کا عنعنہ صحتِ حدیث کے منافی ہے۔ بنا بریں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے النکت (۲/ ۶۴۰) میں انھیں درجۂ ثالثہ کا مدلس گردانا ہے اور ان کا یہی قول راجح ہے۔ انھیں حافظ علائی رحمہ اللہ نے طبقۂ ثانیہ میں ذکر کیا ہے۔ (جامع التحصیل: ۱۳۰) مگر بعد ازاں انھیں ’’مشہور بالتدلیس، فکثر منہ‘‘ قرار دیا ہے۔(جامع التحصیل: ۲۲۸)