کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 254
قارئینِ عظام! ان کے آخری جملہ پر غور فرمائیں: ’’جمہور کا مسلک بھی یہی ہے۔‘‘ ۴۔ ’’آپ (محترم زبیر صاحب) نے حافظ علائی، حافظ ابن حجر رحمہما اللہ وغیرہما جنھوں نے مدلسین کو چند مراتب میں تقسیم فرمایا ہے، ان سب کی مساعیِ جمیلہ پر پانی پھیر دیا۔‘‘ (مقالات: ۱/ ۳۱۹، ۳۲۰) حاصل یہ کہ سید صاحب بھی طبقاتی تقسیم کے قائل ہیں۔ شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ : دیگر محدثین کی طرح استاذ گرامی بھی مدلسین کی طبقاتی تقسیم کے قائل ہیں۔ ان کے الفاظ ہیں: ’’امام مسلم رحمہ اللہ تو اس مدلس کی معنعن روایت پر نقد کرتے ہیں جو تدلیس میں معروف و مشہور ہو۔ ان کے الفاظ ہیں: ’’إذا کان الراوی ممن عرف بالتدلیس فی الحدیث وشھربہ‘‘ (مقدمہ صحیح مسلم: ۱/ ۲۳) اسی طرح امام علی بن مدینی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ راوی مدلس ہو اور وہ ’’حدثنا‘‘ نہ کہے تو کیا وہ حجت ہے؟ انھوں نے فرمایا: ’’إذا کان الغالب علیہ التدلیس فلا، حتی یقول: حدثنا‘‘(الکفایۃ: ۵۱۶) ’’جب اس پر تدلیس غالب ہو تو وہ اس وقت حجت نہیں، الا یہ کہ وہ حدثنا کہے۔‘‘ ’’امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کے قول سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس مدلس کا عنعنہ حجت نہیں جو کثیر التدلیس ہو اور تدلیس میں مشہور ہو۔ اس اعتبار سے بھی مکحول جب تدلیس میں معروف و مشہور نہیں تو اس کا عنعنہ مقبول ہے۔‘‘ (توضیح الکلام: ۳۱۴)