کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 251
قطعی اورضروری نہیں، بلکہ دلائل کے ساتھ اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔‘‘ دلائل کی بنا پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے اختلاف کی گنجایش ہے۔ نامور علما نے ان کی علمی جلالت تسلیم کرنے کے بعد بھی ان سے اختلاف کیا ہے، بلکہ خود حافظ صاحب کا بھی متعدد راویوں کے بارے میں اجتہاد متغیر ہوا۔ لیکن اس سے یہ مفہوم کشید کرنا کہ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے طبقۂ ثانیہ کے مدلس پر تنقید کی ہے۔ لہٰذا ان کے ہاں سبھی مدلسین کا حکم یکساں ہے، غیر مستحسن ہے، بلکہ ان کے کلام سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ علامہ نیموی کو الزامی جواب دے رہے ہیں۔ نہ کہ نخعی کی معنعن روایت کو ہدفِ تنقید ٹھیرا رہے ہیں۔ آپ یہ بھی پڑھ آئے ہیں کہ مبارکپوری رحمہ اللہ اس بابت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے قدم بر قدم ہیں۔ اب دوسرے عالم محدث محمد گوندلوی رحمہ اللہ کا موقف پیشِ خدمت ہے: محدث العصر محمد گوندلوی: امام محمد گوندلوی کی چند تحریریں ملاحظہ ہوں: ۱۔ ’’تدلیس کے متعلق محقق مسلک یہی ہے کہ جس سے تدلیس بہ کثرت ثابت ہو، اگرچہ ثقہ ہی کیوں نہ ہو، جب تک سند میں ایسا لفظ نہ بولے جس سے سماع کا پتا چلتا ہو، اس وقت تک اس کی سند صحیح نہیں ہوتی۔ مدلسین کے طبقات: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبقات المدلسین میں ان کے پانچ مراتب بیان کیے ہیں۔ 1.جس سے بہت کم تدلیس ثابت ہو۔۔۔2. جس کی تدلیس کو ائمۂ حدیث نے برداشت کیا ہو۔۔۔۔ ‘‘ (خیر الکلام في وجوب الفاتحۃ خلف الإمام: ۵۱)