کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 250
کیا ہے۔ محدث مبارکپوری رحمہ اللہ اسی صراط پر گامزن ہیں، حالانکہ دوسرے مقام پر حافظ صاحب نے انھیں ’’قلیل التدلیس‘‘ بھی قرار دیا ہے۔ محدث مبارکپوری رحمہ اللہ اگر حافظ صاحب کی اس رائے پر مطلع ہوتے تو شاید امام زہری کے عنعنہ پر کلام نہ کرتے۔ 5. مبارکپوری نے طبقۂ ثانیہ (قلیل التدلیس) کے مدلسین کی روایات کو ضعیف قرار نہیں دیا، بلکہ سفیان ثوری کی روایت کے تناظر میں اسی طبقے کے دیگر مدلسین کی روایات کو بطورِ الزام پیش کیا ہے۔ 6. شارحِ ترمذی کی نگاہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف مرجوح جبکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا موقف راجح اور مستحکم ہے۔ 7. اختلافی مسائل کی کتب میں راسخین فی العلم اس اصول کی پیروی کرتے ہیں۔ اکثر احناف کی طرح مطلب برآری کے لیے علامہ نیموی صاحب جیسے بزرگ اس قاعدہ کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ محدث مبارکپوری کے کلام سے عجیب استدلال: ایک صاحب رقمطراز ہیں: ’’مولانا عبدالرحمن مبارکپوری نے ابراہیم نخعی (طبقۂ ثانیہ) کی عَنْ والی روایت پر جرح کی اور کہا: اس کی سند میں ابراہیم نخعی مدلس ہیں۔ حافظ نے انھیں طبقات المدلسین میں سفیان ثوری کے طبقے میں ذکر کیا ہے اور انھوں نے اسے اسود سے عَنْ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ لہٰذا نیموی کے نزدیک یہ اثر کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟ (أبکار المنن، ص: ۴۳۶) اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ حدیث علما کے نزدیک بھی یہ طبقاتی تقسیم