کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 244
تیسرا مقالہ:
محدثین اور مسئلۂ تدلیس
احادیث کی پرکھ کے لیے محدثین نے مصطلح الحدیث متعارف کرائی۔ جس میں سلسلۂ سند کے متصل اور منقطع ہونے کے قواعد ذکر کیے گئے۔ انقطاعِ جلی اور انقطاعِ خفی پر بحث کی گئی۔ انقطاعِ خفی کا دوسرا نام تدلیس ہے جو نہایت پیچیدہ مسئلہ ہے۔ راقم الحروف نے بھی اس کی نزاکت کے پیشِ نظر قلم اُٹھایا اور ’’التحقیق والتنقیح في مسئلۃ التدلیس‘‘ رقم کیا۔ جس میں ثابت کیا کہ تدلیس کی کمی و بیشی کی بنا پر روایت کا حکم متغیر ہوتا ہے۔ کثیر التدلیس کی معنعن روایت ضعیف جبکہ قلیل التدلیس کی معنعن حدیث صحیح ہوتی ہے۔ مؤخر الذکر کی وہی روایت لائقِ التفات نہ ہوگی جس میں فی الواقع تدلیس ہوگی۔ یہی منہج متقدمین اور متأخرین ائمۂ حدیث کا ہے۔
بعض فضلا نے ہمارے موقف کا تعاقب کیا اور اصرار کیا کہ تدلیس الاسناد کے مرتکب کی ہر معنعن حدیث ضعیف ہے۔ چاہے راوی قلیل التدلیس ہو یا کثیر التدلیس۔ اس عمومی حکم سے وہی روایت مستثنیٰ ہوگی جس کی معتبر متابعت موجود ہوگی یا صحیح شاہد مذکور ہوگا۔ یہی موقف امام شافعی رحمہ اللہ اور جمہور کا ہے!
آئندہ سطور میں آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے ہمنواؤں کے موقف میں کتنا وزن ہے۔ ان شاء اللہ!