کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 228
’’اگر راوی سے تدلیس کا وقوع بہت کم ہو تو اس کا عنعنہ وغیرہ (قال، حدث) قبول کیا جائے گا، بصورت دیگر نہیں۔‘‘
بعد ازاں حافظ سخاوی نے مدلسین کے پانچ طبقات کی تائید کی ہے۔
۲۰۔ شیخ الشریف حاتم العونی:
موصوف کا مصطلح الحدیث میں علمی رسوخ ایک مسلّمہ حقیقت ہے، جس پر ان کی متعدد کتب بخوبی دلالت کرتی ہیں۔
تدلیس، ارسالِ خفی اور حسن بصری کی مرویات کے حوالے سے ان کی کتاب ’’المرسل الخفي و علاقتہ بالتدلیس‘‘ انتہائی معروف ہے۔ اسی طرح معاصرین کی معنعن حدیث کے بارے میں ان کی کتاب ’’إجماع المحدثین علی عدم اشتراط العلم بالسماع في الحدیث المعنعن بین المتعاصرین‘‘ بھی شہرۂ آفاق ہے۔
یہ دونوں کتب غمازی ہیں کہ موصوف کا تدلیس، مدلسین، غیر مدلسین اور ان کے عنعنات کے بارے میں قابلِ قدر دراستہ ہے۔
موصوف کے ہاں بھی تدلیس کی قلت اور کثرت کا اعتبار کیا جائے گا۔ (المرسل الخفی للعوني: ۱/ ۴۹۰۔ ۴۹۲)
مزید لکھتے ہیں:
’’محدثین ہر مدلس، جس سے تدلیس کی کوئی صورت صادر ہوتی ہے، کا عنعنہ رد نہیں کرتے۔ باوجود کہ وہ توسع سے کام لیتے ہوئے اسے مدلس قرار دیتے ہیں۔
جبکہ حقیقی مدلس وہ ہوتا ہے جس کے عنعنہ پر تدلیس غالب ہو، ایسا راوی استحقاق رکھتا ہے کہ اس کے عنعنہ کو رد کیا جائے۔