کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 226
’’وہ بسا اوقات تدلیس کرتا ہے۔‘‘(سیر أعلام النبلاء: ۹/ ۷۶، تاریخ بغداد: ۵/ ۲۴۹)
۱۴۔ حافظ عجلی:
اسماعیل بن ابی خالد کے بارے میں رقمطراز ہیں:
’’وہ بسا اوقات شعبی سے ارسال (تدلیس) کرتے ہیں۔‘‘(معرفۃ الثقات والضعفاء للعجلي: ۱/ ۲۲۵، تاریخ الثقات، ص: ۶۴)
۱۵۔ حافظ دارقطنی:
’’ابن جریج کی تدلیس سے محتاط رہا جائے، کیونکہ وہ خطرناک تدلیس کرتے ہیں۔‘‘ (سؤالات الحاکم للدارقطني، ص: ۱۷۴)
یحییٰ بن ابی کثیر کے بارے میں فرمایا:
’’وہ بہ کثرت تدلیس کرتا ہے۔‘‘ (التتبع، ص: ۱۲۶)
ان ائمہ کے اقوال کو پیشِ نظر رکھنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ائمہ نقد کے ہاں تدلیس کی قلت اور کثرت کا اعتبار کیا جاتا تھا۔ ورنہ انھیں یہ صراحت کرنے کی ضروری ہی کیا تھی کہ فلاں قلیل اور فلاں راوی کثیر التدلیس ہے۔ وہ محض یہ کہہ دیتے کہ فلاں مدلس ہے اور بس۔
جس طرح راویان کی ثقاہت اور ضعف کے درجات ہیں، اسی طرح تدلیس کے بھی مراتب ہیں۔
۱۶۔حافظ علائی رحمہ اللہ :
مدلسین کے طبقات مقرر کرنے والے سب سے پہلے حافظ علائی ہیں، وہ رقمطراز ہیں:
’’پھر اس کے بعد جان لیا جائے کہ سبھی مدلسین ایک مرتبہ میں نہیں کہ ان