کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 224
یہ بھی احتمال ہے کہ امام صاحب اس قول سے مراد تدلیس کا ثبوت اور صحت لے رہے ہوں۔ اس صورت میں امام مسلم رحمہ اللہ کا قول امام شافعی رحمہ اللہ کے قول کے مترادف ہوگا۔‘‘ (شرح علل الترمذي لابن رجب: ۲/ ۵۸۳) حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کے اس قول کے حوالے سے عرض ہے کہ ان کا ذکر کردہ پہلا احتمال امام مسلم رحمہ اللہ کے منہج کے عین مطابق ہے، کیونکہ تدلیس کی بنا پر راوی اسی وقت مشہور ہوگا، جب وہ کثرت سے کرے گا۔ رہا ایک حدیث میں تدلیس کرنا یا ایک ہی بار تدلیس کرنا تو اس سے تدلیس میں شہرت نہیں مل سکتی۔ ان متقدمین کے علاوہ متعدد متأخرین بھی تدلیس کی کمی اور زیادتی کا اعتبار کرتے ہیں۔ امام حاکم، امام ابو نُعیم، امام ابو عمرو الدانی، حافظ علائی اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ وغیرہ کے حوالے سے ہم ’’دوسری دلیل: طبقاتی تقسیم‘‘ کے تحت عرض کر چکے ہیں۔ ۷۔ امام ابو حاتم رحمہ اللہ : انھوں نے عکرمہ بن عمار کے بارے میں فرمایا: ’’وہ بسا اوقات تدلیس کرتا ہے۔‘‘ (الجرح والتعدیل: ۷/ ۱۱) سوید بن سعید کی بابت فرمایا: ’’بہ کثرت تدلیس کرتے ہیں۔‘‘ (الجرح والتعدیل: ۴/ ۲۴۰) ۸۔ امام ابو داود: انھوں نے محمد بن عیسیٰ الطباع کے بارے میں فرمایا: ’’وہ بسا اوقات تدلیس بھی کرتے تھے۔‘‘(سؤالات الآجري: ۲/ ۲۴۶، فقرۃ: ۱۷۳۷)