کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 222
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ انھوں نے ثوری کی ان شیوخ سے روایات میں اصل اتصالِ سند کو رکھا ہے، تا آنکہ کسی روایت میں صراحتاً تدلیس ثابت ہوجائے؟ یا پھر ان روایات میں اصل انقطاع ہے، یہاں تک کہ ہر ہر حدیث میں سماع یا تحدیث کی صراحت موجود ہو؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انھوں نے امام ثوری کی ان سے معنعن روایات کو سماع پر محمول کیا ہے، تاآنکہ کسی قرینے سے معلوم ہو جائے کہ یہ روایت مدلّس ہے، جیسا کہ دیگر ماہرینِ فن کا اسلوب ہے۔ ثانیاً: چونکہ سفیان ثوری کو امام بخاری سے قبل متعدد محدثین نے مدلس قرار دیا ہے، جن میں امام یحییٰ بن سعید القطان بھی شامل ہیں۔ (التاریخ لابن معین: ۳/ ۳۷۴، فقرہ: ۱۸۲۲ ۔روایۃ الدوری۔، العلل و معرفۃ الرجال للإمام أحمد: ۱/ ۲۴۲، فقرہ: ۳۱۸) جس کی بنا پر امام بخاری جانتے تھے کہ ثوری مدلس ہیں۔ اب سوال یہ تھا کہ ان کی تدلیس کی ماہیت کیا ہے؟ جس کے پیشِ نظر انھوں نے ثوری کی سبھی روایات کا استقرا کیا اور پھر یہ نتیجہ نکالا کہ ثوری قلیل التدلیس ہیں، لہٰذا ان کا عنعنہ سماع پر محمول کرتے ہوئے قبول کیا جائے گا۔ مدلّس روایت اس سے مستثنیٰ ہوگی۔ اگر وہ انھیں کثیر التدلیس سمجھتے تو بحث کا کیا فائدہ؟ کیونکہ یہ تحصیل حاصل ہے کہ کثیر التدلیس کا عنعنہ موجبِ ضعف ہے۔ ثالثاً: امام بخاری رحمہ اللہ کے اس قول سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام ثوری ان نامزد اور دیگر متعدد شیوخ سے بھی تدلیس نہیں کرتے۔ یہ نکتہ اختلاف کے وقت ترجیح دینے میں، راویان کے طبقات کی معرفت میں اور ان شیوخ سے سفیان اور دیگر راویان کی روایت کے موازنے میں ممد ثابت ہوسکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد امام مسلم رحمہ اللہ کا قول اس مسئلہ میں دلیلِ قطعی ہے۔