کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 221
خلاصہ یہ ہے کہ وہ کثیر التدلیس راوی کے عنعنہ کے بارے میں توقف بھی کرتے ہیں اور ان کے ہاں اس حوالے سے کوئی کلی قاعدہ موجود نہیں ہے۔
وہ اعمش کا عنعنہ رد نہیں کر رہے، جو مشہور بالتدلیس ہیں، تو اس کا لازمی تقاضہ یہ ہے کہ وہ قلیل التدلیس راوی کے عنعنہ کو بالاولی سماع پر محمول کرتے ہیں۔
گویا یہ وہی منہج ہے، جو امام ابن معین رحمہ اللہ ، امام ابن المدینی رحمہ اللہ وغیرہ کا ہے۔
۵۔ امام بخاری رحمہ اللہ قلتِ تدلیس کے قائل ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ سفیان ثوری کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’ولا أعرف لسفیان الثوري عن حبیب بن أبي ثابت ولا عن سلمۃ بن کھیل ولا عن منصور وذکر مشایخ کثیرۃ، ولا أعرف لسفیان عن ھؤلاء تدلیساً ما أقل تدلیسہ‘‘(علل الترمذی: ۲/ ۹۶۶، التمھید لابن عبد البر: ۱/ ۳۵، جامع التحصیل للعلائی، ص: ۱۳۰، النکت لابن حجر: ۲/ ۶۳۱)
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ تدلیس کی کمی اور زیادتی کا اعتبار کیا جائے گا۔ کیونکہ انھوں نے یہ نہیں فرمایا کہ سفیان ثوری جن اساتذہ سے تدلیس نہیں کرتے، ان سے معنعن روایت بھی بیان نہیں کرتے۔ بلکہ یہ فرمایا:
’’سفیان ثوری کی ان شیوخ سے تدلیس میں نہیں جانتا۔‘‘
اور یہ بھی انتہائی بعید ہے کہ ثوری کی ان شیوخ سے سبھی مرویات جو امام بخاری رحمہ اللہ تک پہنچی ہیں، وہ سماع یا تحدیث کی صراحت کے ساتھ ہوں، بلکہ ان سے معنعن روایات کا موجود ہونا ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔ مگر اس کے باوجود انھوں نے جن احادیث کا تتبع کیا ہے، وہ ایسی ہیں جن میں تدلیس موجود ہو۔ ایسی نہیں جن میں سماع اور تدلیس دونوں کا احتمال ہو۔