کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 220
معروف ہے کہ جب وہ ’’سمعت‘‘ نہ کہے تو وہ قابلِ اعتماد ہوگا؟
امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’مجھے نہیں معلوم‘‘
میں نے پوچھا: اعمش کی تدلیس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس کے لیے الفاظ کیسے تلاش کیے جائیں گے (ان کی ان مرویات کو کیسے اکٹھا کیا جائے گا، جن میں سماع کی صراحت نہیں!)
امام احمد رحمہ اللہ نے جواباً فرمایا: ’’یہ کام بڑا مشکل ہے۔‘‘
امام ابو داود رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’أي إنک تحتج بہ‘‘ آپ اعمش کی معنعن روایات کو قابلِ اعتماد گردانتے ہیں!
(سؤالات أبي داود للإمام أحمد، ص: ۱۹۹، فقرۃ: ۱۳۸)
گویا امام احمد کا مقصود یہ ہے کہ ایک راوی اپنی مرویات کے تناسب سے بہت کم تدلیس کرتا ہے تو اس کے عنعنہ کو محض اس وجہ سے رد نہیں کیا جائے گا کہ وہ مدلس راوی ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو بہت ساری مقبول احادیث بھی رد کرنا ہوں گی۔ یہ تشدد اور بے موقع سختی کا اظہار ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اعمش اور ان جیسے دوسرے مدلسین کی معنعن روایات مطلق طور پر قبول کریں، یہاں تک کہ کسی دلیل سے اس مخصوص حدیث میں تدلیس معلوم ہو جائے، مثلاً صحیح سند کے باوجود متنِ حدیث میں نکارت آجائے، یا پھر کسی دوسری روایت میں اس شیخ سے عدمِ سماع کی صراحت کرے وغیرہ تو وہ مخصوص روایت ناقابلِ اعتبار ہوگی۔
مزید برآں امام احمد رحمہ اللہ کے قول ’’میں نہیں جانتا‘‘ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سبھی مدلسین سے یکساں سلوک نہیں کیا جائے گا۔ سائل خواہش مند تھے کہ امام احمد رحمہ اللہ اس حوالے سے کوئی کلّی قاعدہ بیان فرما دیں، مگر انھوں نے کوئی قاعدہ کلیہ نہیں بتلایا۔