کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 219
ثانیاً: اس راوی کی جتنی مرویات ہیں، ان کے تناسب سے وہ بہت زیادہ تدلیس کرتا ہے، یعنی اس کی تدلیس مرویات پر غالب ہے تو اس کی روایت قبول کرنے میں یہ شرط لاگو کی جائے گی کہ وہ اپنے سماع کی صراحت کرے۔
ان کے کلام کا مفہومِ مخالف یہ ہے کہ قلیل التدلیس راوی کا عنعنہ مقبول ہوگا، الّا یہ کہ اس میں تدلیس ہو۔
جیسا کہ امام سخاوی رحمہ اللہ نے امام ابن المدینی رحمہ اللہ کے اس قول کی توضیح میں فرمایا ہے۔ (فتح المغیث للسخاوی: ۱/ ۲۱۶)
۳۔ حافظ ابن رجب کا موقف:
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول (ہر مدلس کا عنعنہ مردود ہوگا) ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’امام شافعی رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر محدثین نے راوی کی حدیث کے بارے میں تدلیس کے غالب ہونے کا اعتبار کیا ہے، جب تدلیس اس پر غالب آجائے گی تو اس کی حدیث اس وقت قبول کی جائے گی جب وہ صراحتِ سماع کرے۔ یہ علی بن مدینی رحمہ اللہ کا قول ہے، جسے یعقوب بن شیبہ نے بیان کیا ہے۔‘‘ (شرح علل الترمذي لابن رجب: ۲/ ۵۸۳)
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا رجحان بھی امام علی بن مدینی رحمہ اللہ وغیرہ کی طرف ہے۔
۴۔ امام احمد رحمہ اللہ کا نظریہ:
امام احمد رحمہ اللہ بھی اس مسئلہ میں دیگر ناقدین کے ہم دم ہیں۔ امام ابو داود رحمہ اللہ نے امام احمد سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا، جو تدلیس کی وجہ سے