کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 218
’’جس روایت میں وہ تدلیس کرے گا، اس میں قابلِ اعتماد نہیں ہوگا۔‘‘ (الکفایۃ للخطیب البغدادي: ۲/ ۳۸۷۔ إسنادہ صحیح۔، الکامل لابن عدي: ۱/ ۴۸، التمھید لابن عبد البر: ۱/ ۱۷۔ ۱۸) قارئینِ کرام! ذرا غور فرمائیں کہ امام ابن معین رحمہ اللہ نے مدلس کی روایت کے عدمِ حجت ہونے میں یہ قاعدہ بیان نہیں فرمایا کہ جب وہ روایت عنعنہ سے کرے تو تب وہ حجت نہیں ہوگا، بلکہ فرمایا کہ اس کا عنعنہ مقبول ہے، مگر اس شرط پر کہ اس عنعنہ میں تدلیس مضمر نہ ہو۔ بصورت دیگر وہ روایت منکر اور ناقابلِ اعتماد ہوگی۔ امام ابن معین ربیع بن صبیح کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ربما دلس‘‘ (التاریخ لابن معین، فقرۃ: ۳۳۴۔ الدارمي) ’’وہ کبھی کبھار تدلیس کرتا ہے۔‘‘ گویا وہ تدلیس کی کمی و بیشی کے قائل تھے۔ ورنہ ’’ربما‘‘ کی صراحت بے معنی ہوگی۔ ۲۔ امام ابن المدینی رحمہ اللہ کے ہاں تأثیر: امام العلل وطبیبھا علی بن المدینی رحمہ اللہ امام ابن شیبہ رحمہ اللہ کے استفسار پر فرماتے ہیں: ’’إذا کان الغالب علیہ التدلیس فلا حتی یقول: حدثنا‘‘ ’’جب تدلیس اس پر غالب آجائے تو تب وہ حجت نہیں ہوگا، یہاں تک کہ وہ اپنے سماع کی توضیح کرے۔‘‘ (الکفایۃ للبغدادي: ۲/ ۳۸۷ ۔إسنادہ صحیح۔ التمھید لابن عبد البر: ۱/ ۱۸) انھوں نے اس جوابی فقرہ میں دو باتوں کی نشان دہی فرمائی ہے: اولاً: مدلّس روایت حجت نہیں۔