کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 217
۱۔ پہلا ذریعہ یہ ہے کہ متقدمین ناقدینِ فن میں سے کوئی امام کسی مدلس راوی کو صراحتاً کثیر التدلیس قرار دے یا اس کے عنعنہ کے بارے میں یہ شرط لاگو کر دے کہ اس کی روایت صحت پر تبھی محمول کی جائے گی، جب وہ اپنے شیخ سے سماع کی صراحت کرے گا۔ جیسا کہ محدثین نے محمد بن اسحاق کے عنعنہ کے بارے میں یہ اصول مقرر کیا ہے۔ یہ علامت ہے کہ ایسا مدلس کثیر التدلیس ہے۔
۲۔ دوسرا ذریعہ یہ ہے کہ ناقدینِ فن کے طرزِ عمل کو دیکھا جائے کہ وہ مدلس راوی کی مرویات سے کیسا سلوک برتتے ہیں۔ مثلاً وہ مدلس کی روایت صرف اسی صورت میں قبول کرتے ہیں، جب وہ اپنے شیخ سے سماع کی صراحت کر لے، یہ بھی دلیل ہے کہ فلاں مدلس کثیر التدلیس ہے۔
جو مدلسین ان دونوں صورتوں میں سے کسی صورت میں داخل نہیں تو وہ قلیل التدلیس مدلسین ہیں۔ یہی فہم ناقدینِ فن کے اقوال سے مترشح ہوتا ہے۔
۱۔ امام ابن معین رحمہ اللہ کا فیصلہ:
امام یعقوب بن شیبہ رحمہ اللہ ۲۶۲ھ نے امام العلل یحییٰ بن معین رحمہ اللہ ۲۳۳ھ سے تدلیس کی بابت استفسار کیا تو امام ابن معین رحمہ اللہ نے تدلیس کو معیوب اور مکروہ جانا۔ امام ابن شیبہ رحمہ اللہ نے امام العلل سے سوال کیا:
’’مدلس اپنی روایت میں قابلِ اعتماد ہوتا ہے، یا جب وہ ’’حدثنا‘‘ یا ’’أخبرنا‘‘ کہے؟ یعنی اپنے سماع کی صراحت کرے۔
امام صاحب نے انتہائی لطیف جواب ارشاد فرمایا جو ان کے اس میدان کے شہسوار ہونے پر دلالت کرتا ہے، فرمایا: ’’لا یکون حجۃ فیما دلّس‘‘