کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 216
ثقہ ہو اور اس روایت میں نکارت نہ پائی جائے۔ اگر نکارت موجود ہو اور اس کا بظاہر کوئی اور سبب نہ ہو تو وہ تدلیس کا شاخسانہ قرار دی جائے گی۔ گویا ثقہ مدلس راوی کے عنعنہ کو تبھی تدلیس قرار دیا جائے گا، جب اس کی سند یا متن میں نکارت پائی جائے گی۔
تدلیس کی کمی اور زیادتی کے بارے میں عام طور پر ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے۔
قلت اور کثرت کے لیے کسوٹی:
غلط فہمی یہ ہے کہ راوی کے قلیل یا کثیر التدلیس ہونے کے لیے کسوٹی مدلسین کا باہمی تقابل ہے۔ جو کبھی کبھار تدلیس کرتا ہے تو وہ قلیل التدلیس ہوگا اور جو کثرت سے تدلیس کرتا ہے تو وہ کثیر التدلیس ہوگا۔ اس مسئلہ میں یہ اساسی غلطی ہے۔
درست موقف یہ ہے کہ کسوٹی راوی کی مرویات اور اس کی مقدارِ تدلیس ہے، یعنی ایک راوی نے بہت کم روایات بیان کیں، مگر وہ ان میں بھی تدلیس کرتا ہے، تو یہ راوی کثیر التدلیس ہوگا اور جس راوی کی مرویات سے ذخیرۂ احادیث معمور ہے اور اس کی تدلیس کا تناسب بھی وہی ہے، جو ابھی کثیر التدلیس کا مذکور ہوا ہے، تو یہ قلیل التدلیس ہوگا۔ اس کے عنعنہ اور قبلِ ازیں مذکور (کثیر التدلیس) شخص کے عنعنہ میں فرق کیا جائے گا۔
اول الذکر کے عنعنہ کے مقبول ہونے کا دائرہ مضیّق ہوگا اور مؤخر الذکر مدلس کے عنعنہ کے مقبول ہونے کا دائرہ وسیع ہوگا۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ معرفت بھی ضروری ہے کہ مدلس کے قلیل یا کثیر التدلیس ہونے کی پہچان کیا ہے؟
قلت اور کثرت کی معرفت کے ذرائع:
تدلیس کی کمی اور زیادتی کو جاننے کے دو ذرائع ہیں: