کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 215
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اس طبقاتی تقسیم کو اساس قرار دے کر دکتور مسفر بن غرم اللہ الدمینی نے کتاب ’’التدلیس في الحدیث‘‘ لکھی، جو مطبوع اور متداول ہے۔ بلکہ جنھوں نے بھی مسئلۂ تدلیس کے بارے میں لکھا، انھوں نے ان پہلوؤں کو فراموش نہیں کیا۔ یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ نے فلاں راوی کو فلاں طبقے میں ذکر کیا ہے، حالانکہ وہ اس طبقے کا راوی نہیں، لہٰذا یہ طبقاتی تقسیم بھی درست نہیں۔ عرض ہے کہ کسی خاص راوی کے طبقے کی تعیین میں اختلاف ہونا ایک علیحدہ بات ہے۔ اس سے مدلسین کی طبقاتی تقسیم پر کوئی زد نہیں پڑتی، بلکہ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے النکت میں اپنی کتاب ’’تعریف اہل التقدیس‘‘ کے برعکس رواۃ کے طبقات میں تبدیلی کی ہے، جو غمازی ہے کہ یہ معاملہ اجتہادی نوعیت کا ہے۔ مدلسین کی اس طبقاتی تقسیم سے معلوم ہوا کہ بعض مدلسین کی معنعن روایت مقبول ہوتی ہے اور بعض کی رد۔ امام شافعی کے موقف کے خلاف تیسری دلیل یہ ہے کہ محدثین تدلیس کی قلت اور کثرت کا بھی اعتبار کرتے ہیں۔ تیسری دلیل: تدلیس کی کمی و زیادتی کی تأثیر: مدلسین کی معنعن روایات کا عمومی حکم اوپر بیان ہوچکا ہے کہ ایسی مرویات ضعیف ہوں گی، الا یہ کہ مدلس اپنے شیخ سے سماع کی صراحت کرے یا اس کا کوئی متابع یا شاہد موجود ہو۔ مگر جو راوی قلیل التدلیس ہو، اس کی معنعن روایت مقبول ہوگی، بشرط کہ وہ خود