کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 213
کی اس شیخ سے بقیہ احادیث سماع پر محمول کرتا ہوں، کیونکہ اس میں تدلیس کی جو قسم پائی جاتی ہے، وہ ایسے معاصر سے روایت کرنا ہے، جس سے سماع ثابت نہیں، اس لیے اگر ایک ہی حدیث میں سماع ثابت ہوجائے تو اس مخصوص شیخ سے تدلیس کا الزام ختم ہوجائے گا۔‘‘(شرح موقظۃ الذھبی للعونی، ص: ۱۲۶) تیسری قسم: اس قسم میں تدلیس الشیوخ ہے، جس میں صیغِ ادا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، بلکہ اس کا حکم مدلّس راوی کی معرفت پر موقوف ہوتا ہے۔ اگر وہ معلوم ہو جائے اور ہو بھی ثقہ تو اس کی نقل کردہ چیز مقبول ہوگی اور اگر وہ ضعیف ہو تواس کا نقل کردہ قول بھی لائقِ التفات نہ ہوگا۔ جو لوگ ہر مدلس کا عنعنہ رد کرتے ہیں، وہ ایسے مدلس کے عنعنہ کو بھی رد کر دیں گے !!! چوتھی قسم: اس میں تدلیس الصیغ (صیغوں میں تدلیس) ہے۔ اس قسم میں بھی تدلیس کی نوع متعین کرنا ہوگی اور اس کے مرتکبین ذہن نشین رکھنے ہوں گے۔ اس تدلیس کی تأثیر تدلیس الاسناد کی تأثیر سے مختلف ہے، کیونکہ تدلیس الاسناد میں راوی کا عنعنہ مسترد ہوتا اور یہاں مقبول ہوتا ہے۔ جو آدمی تحملِ حدیث میں روایت بالاجازۃ قبول نہیں کرتا، اس کے ہاں ایسے مدلس کی تصریحِ سماع قابلِ رد اور عنعنہ مقبول ہوگا۔