کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 212
پہلی دلیل: تدلیس کا حکم:
تدلیس کا حکم لگانے سے قبل یہ متعین کرنا ضروری ہے کہ تدلیس کی نوعیت کیا ہے؟ اس بنا پر تدلیس اور اس کے حکم کو چار حصوں میں منقسم کیا جائے گا۔
پہلی قسم:
پہلی قسم یہ ہے کہ راوی اپنے استاد سے وہ احادیث بیان کرتا ہے، جو اس نے مروی عنہ (جس سے روایت کر رہا ہے) سے سنی نہیں ہوتیں، جبکہ مطلق طور پر اس کا سماع متحقق ہوتا ہے۔
اس قسم کا حکم یہ ہے کہ مدلس کی ہر حدیث میں اس کے شیخ سے سماع کی صراحت تلاش کی جائے گی، کیونکہ وہ جس حدیث کو بھی محتمل صیغہ سے بیان کر رہا ہے، اس میں احتمال ہے کہ اس نے یہ حدیث اپنے استاد سے نہ سنی ہو۔
ملحوظ رہے کہ یہ حکم کثیر التدلیس مدلسین کا ہے۔
دوسری قسم:
راوی اپنے ایسے ہم زمانہ سے حدیث بیان کرے، جس سے اس کی ملاقات نہیں ہوتی، مگر جس صیغے سے بیان کرتا ہے، اس سے اشتباہ ہوتا ہے کہ یہ حدیث بھی اس کی مسموعات میں سے ہے۔
تدلیس کی اس قسم کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ارسالِ خفی قرار دیتے ہیں۔
اس قسم کے حکم کے بارے میں علامہ حاتم بن عارف الشریف رقمطراز ہیں:
’’میں راوی کا عنعنہ اتنی دیر تک قبول نہیں کرتا، جب تک اس کی مروی عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہوجاتی، اگرچہ یہ ملاقات یا سماعِ حدیث صرف ایک ہی حدیث سے ثابت ہو جائے تو میں اس راوی