کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 211
امتیاز کیا، پہلی صورت (مسموع) کو قبول کیا، اگرچہ ان (مدلسین) سے سماع کی صراحت نہ تھی۔ امام شافعی رحمہ اللہ کی عبارت میں بنیاد ہے۔ مگر تطبیقی اعتبار سے وہ مطلق طور پر اختیار نہیں کی جائے گی۔‘‘(التعلیق علی الکافي في علوم الحدیث للأردبیلی، ص: ۳۸۹)
علامہ زرکشی رحمہ اللہ کا تعاقب آپ اوپر پڑھ آئے ہیں کہ انھوں نے امام شافعی رحمہ اللہ کے اس قول کو غریب اور جمہور کے خلاف قرار دیا ہے۔
ہمیں کوئی ایسا مستند عالم دین، جس نے اپنی زندگی تحقیق الحدیث میں صَرف کی ہو، نہیں ملا جو امام شافعی کی ہمنوائی کرے۔
جس سے معلوم ہوا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف محلِ نظر ہے۔ جس کے دلائل درج ذیل ہیں۔
1. محدثین کے ہاں تدلیس کی سبھی صورتوں کا حکم یکساں نہیں ہے۔
2. مدلسین کے مختلف طبقات ہیں۔
3. محدثین کے ہاں تدلیس کی کمی و زیادتی کا اعتبار کیا جائے گا۔
4. ثقہ اور ضعیف راویوں سے تدلیس کرنے کا حکم یکساں نہیں ہے۔
5. مدلس راوی کسی ایسے شخص سے عنعنہ سے بیان کرے، جس سے اس کی رفاقت معروف ہو تو اس کے عنعنہ کو سماع پر محمول کیا جائے گا۔
6. جو مدلس مخصوص اساتذہ سے تدلیس کرے تو اس کی باقی شیوخ سے معنعن روایت سماع پر محمول کی جائے گی۔
اب ان ادلّہ کی تفصیل ملاحظہ ہو: