کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 210
’’یہ کلام صرف نظریات کی حد تک ہے، بلکہ ممکن ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے خود اس پر عمل نہ کیا ہو۔ اپنی اسی کتاب (الرسالۃ) میں متعدد مقامات پر ابن جریج کی معنعن روایت سے احتجاج کیا ہے۔ اس حدیث میں امام شافعی رحمہ اللہ نے ابن جریج کی اپنے شیخ سے صراحتِ سماع ذکر نہیں کی، اسی طرح ابو الزبیر کا معاملہ ہے۔‘‘(مقدمۃ منھج المتقدمین في التدلیس، ص: ۲۳) 3. دوسرے شیخ ناصر بن حمد الفہد رقمطراز ہیں: ’’امام شافعی رحمہ اللہ کے اس قول کی موافقت ائمۂ حدیث نہیں کرتے، جیسا کہ امام احمد، ابن مدینی، ابن معین اور فسوی رحمہم اللہ کا موقف ہے۔ امام شافعی امت کے فقہاء اور علمائے اسلام میں سے ہیں، مگر حدیث کے بارے میں ان کی معرفت ان حفاظ جیسی نہیں ہے۔۔۔ اور اگر ہم امام شافعی رحمہ اللہ کے قول کا اعتبار کریں تو ہمیں بہت سی ایسی صحیح احادیث بھی رد کرنا ہوں گی، جنھیں کسی نے بھی رد نہیں کیا، یہاں تک (کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی موافقت میں) شوافع نے بھی رد نہیں کیں، بلکہ انھوں نے مدلسین کے مراتب بنائے۔‘‘(منھج المتقدمین في التدلیس، ص: ۱۷۱) 4. شیخ محمد بن طلعت نے ان دونوں شیوخ کی تائید کی ہے۔(معجم المدلسین للشیخ محمد طلعت، ص: ۲۱۶، ۲۱۷) 5. شیخ ابو عبیدہ مشہور بن حسن فرماتے ہیں: ’’جس موقف پر ائمۂ نقد گامزن رہے وہ یہ تھا کہ انھوں نے مشاہیر کی تدلیس کا تتبع کیا۔ اور انھوں نے مسموع اور تدلیس شدہ روایات میں