کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 209
سے تدلیس کرتا ہے تو اس کی روایت عدمِ صراحتِ سماع کے باوجود قبول کی جائے گی۔ دنیا میں صرف سفیان بن عیینہ ایسے ہیں، جو ثقہ متقن سے تدلیس کرتے ہیں۔ سفیان بن عیینہ کی کوئی حدیث ایسی نہیں ہے، جس میں وہ تدلیس کریں اور اسی حدیث میں ان کے اپنے جیسے ثقہ راوی سے سماع کی وضاحت موجود ہوتی ہے۔‘‘ (مقدمۃ صحیح ابن حبان: ۱/ ۹۰ ۔الإحسان) ان کے اس قول سے اشتباہ ہوتا ہے کہ موصوف کے ہاں جو صرف ثقہ سے تدلیس کرتے ہیں، وہ صرف ابن عیینہ ہیں! مگر یہ فہم درست نہیں کیونکہ وہ اپنے ہی جیسے ثقہ متقن راوی سے تدلیس کرتے ہیں۔ عام ثقات سے نہیں۔ اور یہ عمومی قاعدہ ہے۔ اس سے وہ روایات مستثنیٰ ہوں گی، جن میں تدلیس پائی جائے گی۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور حافظ بغدادی رحمہ اللہ کا مذکورۃ الصدر موقف محلِ نظر ہے، بلکہ جمہور محدثین اور ماہرینِ فن کے خلاف ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کا جواب: 1. حافظ زرکشی کا رد: حافظ بدر الدین الزرکشی رحمہ اللہ ۷۹۴ھ امام شافعی رحمہ اللہ کے اس قول کا تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’وھو نص غریب لم یحکمہ الجمھور‘‘ ’’یہ انتہائی غریب دلیل ہے، جمہور کا یہ فیصلہ نہیں۔‘‘(النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح للزرکشی، ص: ۱۸۸) 2. شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن السعد فرماتے ہیں: