کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 208
جتنی دیر تک وہ ’’حدثنی‘‘ یا ’’سمعت‘‘ نہ کہے (صراحتِ سماع نہ کرے)۔‘‘(الرسالۃ للإمام الشافعي، ص: ۳۷۹، ۳۸۰، فقرہ: ۱۰۳۳، ۱۰۳۵) ان کے مذکورہ بالا کلام کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں فرمایا کہ جو راوی صرف ایک ہی بار تدلیس کرے اس کی ہر معنعن روایت قابلِ رد ہوگی۔ گویا ان کے ہاں راوی کے سماع کے تتبع کے لیے تدلیس کا مکرر ہونا یا اس کی مرویات پر تدلیس کا غالب آنا شرط نہیں، بلکہ تدلیس کا ثبوت ہی کافی ہے۔ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے بھی امام شافعی رحمہ اللہ کے اس قول کی یہی تعبیر کی ہے۔(شرح علل الترمذی: ۲/ ۵۸۲۔ ۵۸۳) مدلس کی ایک ہی بار تدلیس کے حوالے سے حافظ المشرق خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔ (الکفایۃ للخطیب البغدادي: ۲/ ۳۸۹۔ ۳۹۰ و ۳۸۶) امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے کلام کے دوسرے حصہ میں صراحت فرمائی ہے کہ مدلس راوی کی معنعن روایت قابلِ قبول نہیں ہے۔ یہی موقف متعدد محدثین کا ہے۔ مگر کثیر التدلیس راوی کے بارے میں ہے۔ بعض لوگوں نے حافظ ابن حبان رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف بیان کیا ہے۔ بلاشبہ انھوں نے اسی مسلک کو اپناتے ہوئے صراحت بھی فرمائی ہے کہ یہ امام شافعی رحمہ اللہ اور ہمارے دیگر اساتذہ کا موقف ہے۔ (مقدمۃ المجروحین لابن حبان: ۱/ ۹۲) مگر معلوم ہوتا ہے کہ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ کا یہ موقف مطلق طور پر نہیں ہے، کیونکہ ان کے ہاں جو مدلس صرف ثقہ راوی سے تدلیس کرتا ہے، اس کی روایت سماع کی صراحت کے بغیر بھی قبول کی جائے گی۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ’’ایسا مدلس جس کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ وہ صرف ثقہ ہی