کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 207
حدیث کو اس کے استاد سے کسی واسطے اور سماع کی صراحت کے بغیر بیان کرتا ہے، تو یہ محدث اپنے ظنِ غالب کی بنیاد پر سمجھ لیتا ہے کہ اس راوی نے اس روایت کو بیان کرنے میں میرے شاگرد سے تدلیس کی ہے۔
یا پھر دوسری صورت یوں بھی ہے کہ کسی ایک شاگرد نے اپنے شیخ کی سبھی روایات جمع کی ہوتی ہیں، جب کوئی دوسرا راوی اس شیخ سے ایسی حدیث بیان کرتا ہے جسے یہ (جامع) جانتا نہیں تو اس روایت کو وہم کی بنا پر غلط قرار دیا جائے گا یا یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ اس نے یہ روایت ان مجروحین سے سنی ہے، جن کی روایات میں مناکیر کثرت سے ہیں، اور یہ ان سے تدلیس کرتا ہے۔
چھٹا ذریعہ:
تراجم، تواریخ، علل الاحادیث وغیرہ پر مشتمل کتب کی مراجعت سے راویان کی مسموع اور مراسیل روایات کی پہچان ہوجاتی ہے۔
مثال کے طور پر کسی ماہرِ فن کا یہ فیصلہ دینا کہ فلاں راوی نے فلاں شیخ سے صرف فلاں فلاں حدیث سنی ہے۔ یا اتنی احادیث سماعت کی ہیں۔ اس کے بعد ہمیں اسی راوی کی اسی شیخ سے دیگر ایسی احادیث دستیاب ہوں، جنھیں سماع اور عدمِ سماع پر محتمل صیغے سے بیان کیا گیا ہو تو ہم ان مرویات پر تدلیس کا حکم لگائیں گے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کی توضیح:
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
1. ’’جس شخص کے بارے میں ہمیں علم ہو جائے کہ اس نے صرف ایک ہی دفعہ تدلیس کی ہے تو اس کا باطن اس کی روایت پر ظاہر ہوگیا۔
2. اسی لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم مدلس کی حدیث اتنی دیر تک قبول نہیں کرتے،