کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 206
اسی بنا پر تو ناقدینِ فن رواۃ، ان کے احوال، مرویات، اسانید، صحیح اور معلول کی پہچان رکھتے تھے۔ ان اوصاف کی بدولت وہ راوی کی سنی اور ان سنی مرویات اور ان کی کیفیات بھی جان لیتے تھے کہ موصوف (مدلس) نے اپنے استاد سے براہِ راست سماع کیا ہے یا کسی وساطت سے بیان کرتا ہے، وہ ثقہ ہے یا مجروح وغیرہ۔ تیسرا ذریعہ: بعض راوی اپنے شیخ سے حدیث سنتے ہوئے اس کی مرویات کے سماع کے بارے میں سوال کرتے تھے۔ بالخصوص جب وہ محسوس کرتے کہ شیخ کسی حدیث کے سماع میں متشکک ہے تو بہ اصرار اس کی توضیح چاہتے یا استاد کے چہرے کے تأثرات اور الفاظ نوٹ کرتے کہ اس نے سماع کی صراحت کی ہے یا محتمل صیغہ سے بیان کیا ہے۔ چوتھا ذریعہ: اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک حدیث کی دو سندیں مروی ہیں: پہلی سند میں راوی اپنے شیخ، جس سے بعض احادیث سنی ہوتی ہیں، سے محتمل علی السماع صیغے سے بیان کرتا ہے۔ مگر یہی حدیث اسی راوی سے دوسری سند سے مروی ہوتی ہے، مگر اس کے اور اس کے استاد کے مابین ایک زائد راوی موجود ہوتا ہے۔ بالخصوص جب وہ زائد راوی مجروح ہو۔ واضح نشانی ہے کہ اس نے پہلی سند میں اس زائد راوی کو گرایا اور اپنے شیخ سے سماع کا وسوسہ ڈالا ہے۔ پانچواں ذریعہ: اہلِ علم کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ محدث جو حدیث بیان کر رہا ہے اس سے صرف ایک شاگرد احادیث بیان کرتا ہے۔ جب اس راوی کا کوئی ہم عصر اسی