کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 205
تدلیس البلدان:
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ اس کی توضیح میں فرماتے ہیں:
’’بغداد میں ایک طالبِ حدیث داخل ہوا، وہ شیخ کو لے جا کر رقہ میں بٹھاتا ہے، یعنی اس باغ میں جو دریائے دجلہ کے دونوں کنارے چلا گیا ہے، اور شیخ کو حدیث سناتا ہے، پھر اپنے حدیث کے مجموعے میں یوں لکھتا ہے کہ مجھ سے رقہ میں فلاں فلاں شیخ نے حدیث بیان فرمائی۔ اس سے وہ لوگوں کو وہم میں ڈالتا ہے کہ رقہ سے وہ شہر مراد ہے، جو ملک شام کی طرف ہے، تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ اس محدث نے طلبِ حدیث میں دور دراز کے سفر کیے ہیں۔‘‘
(تلبیس إبلیس لابن الجوزي، ص: ۱۱۳)
اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی رقمطراز ہیں:
’’کوئی مصری شخص کہے: مجھے فلاں آدمی نے اندلس میں حدیث بیان کی اور وہ اندلس سے مقامِ قرافہ مراد لے۔‘‘ (النکت لابن حجر: ۲/ ۶۵۱)
تدلیس کی مرکزی اور ذیلی اقسام کی مختصر تعریف کے بعد تدلیس کی معرفت کے ذرائع پیشِ خدمت ہیں۔
تدلیس کی معرفت کے ذرائع:
تدلیس کی معرفت کے چھ ذرائع حسب ذیل ہیں:
مدلس خود صراحت فرما دے کہ میں نے تدلیسِ کی ہے۔
دوسرا ذریعہ:
قوتِ حافظہ، فہم و فراست اور تخریج و تحقیق الحدیث کی طویل عملی مشق ہے۔