کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 204
اسی طرح اجازۃ بدونِ سماع والی روایت کو ’’أخبرنا‘‘ سے بیان کرنا، جیسے امام ابو نُعیم رحمہ اللہ اور دیگر اندلسیوں کا طریقۂ کار تھا۔ (سیر أعلام النبلاء للذھبي: ۱۷/ ۴۶۰)
اسی طرح وجادۃ پر ’’حدثنا‘‘ کا اطلاق کرنا، جیسے اسحاق بن راشد کا رویہ تھا۔(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص: ۱۱۰)
یہ بات بھی فائدہ سے خالی نہیں کہ علامہ الشریف حاتم نے المرسل الخفی (۱/ ۵۳۰۔ ۵۳۱) میں ایسے آٹھ مدلسین ذکر کیے ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ صیغوں میں تاویل کرتے ہیں، یہ رواۃ ان کے علاوہ ہیں جو اجازۃً یا وجادۃً پر حدثنا یا أخبرنا کا اطلاق کرتے ہیں۔ اور شرح الموقظۃ للذہبی میں نویں مدلس: المسیب بن رافع کا بھی اضافہ کیا ہے۔ (شرح موقظۃ الذھبي للعونی، ص: ۱۵۴)
دوسری قسم: تدلیس الشیوخ:
مدلس راوی نے جس استاذ سے حدیث سنی ہوتی ہے، اس کا ایسا وصف بیان کرتا ہے، جس سے اس کی شخصیت مجہول ہوجاتی ہے یا پھر سامعین کی توجہ اسی نام کے کسی دوسرے شیخ کی طرف مائل ہوجاتی ہے، مثلاً وہ اس کا غیر معروف نام، کنیت، قبیلے یا پیشے کی طرف نسبت کر دیتا ہے۔
تدلیس کی اس نوع میں صیغِ ادا میں تدلیس نہیں ہوتی اور نہ سند سے کسی راوی کا اسقاط ہوتا ہے۔ محض شیخ کا نام وغیرہ تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ بنا بریں ایسی تدلیس میں مدلس کا عنعنہ اور صراحتِ سماع دونوں یکساں ہیں۔
معرفۃ أنواع علم الحدیث لابن الصلاح (ص: ۶۶) و إرشاد طلاب الحقائق للنووی (۱/۲۰۷۔ ۲۰۸)
تدلیس الشیوخ کی ذیلی قسم تدلیس البلدان ہے۔