کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 203
کو شبہ ہوتا ہے کہ ’’حدثنا‘‘ کا قائل وہی ہے جو مدلس نے بآوازِ بلند ذکر کیا ہے۔ ایسا فعل عمر بن عبید الطنافسی سے مروی ہے۔ (النکت لابن حجر: ۲/ ۶۱۷)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مذکورہ کتاب میں اسے تدلیس القطع قرار دیا ہے۔
۳۔ تدلیس القطع:
اس میں مدلس راوی صیغۂ ادا حذف کر دیتا ہے اور بطورِ مثال الزھری عن أنس پر اکتفا کرتا ہے۔ (تعریف أہل التقدیس لابن حجر، ص: ۱۶)
اس تدلیس کو تدلیس الحذف بھی کہا جاتا ہے۔
۴۔ تدلیس العطف:
جس میں مدلس اپنے دو اساتذہ، جن سے اس کا سماع ثابت ہوتا ہے، سے روایت بیان کرتا ہے، مگر وہ روایت اس نے صرف پہلے استاد سے سنی ہوتی ہے، اس لیے اس سے سماع کی تصریح کر دیتا ہے اور دوسرے استاد کو پہلے استاد پر عطف کر دیتا ہے۔ اور باور کراتا ہے کہ میں نے یہ روایت ان دونوں اساتذہ سے سماعت کی ہے۔ جیسے ہُشیم بن بشیر نے کہا: ’’حدثنا حصین و مغیرۃ‘‘ حالانکہ ہُشیم نے اس مجلس میں بیان کردہ ایک حرف بھی مغیرہ سے نہیں سنا۔
(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص: ۱۰۵ و جزء في علوم الحدیث لأبي عمرو الدانی، ص: ۳۸۲۔ ۳۸۳، رقم: ۹۴۔ بھجۃ المنتفع)
۵۔ تدلیس الصیغ:
مدلس راوی اپنے شیخ سے روایت کرنے میں ایسے صیغِ ادا استعمال کرتا ہے، جس کے لیے وہ اصطلاحات وضع نہیں کی گئیں۔ مثلاً غیر مسموع روایت پر ’’حدثنا‘‘ کا اطلاق کرنا، جیسے فطر بن خلیفہ کا طرزِ عمل تھا۔ (الضعفاء الکبیر للعقیلي: ۳/ ۴۶۵و فتح المغیث للسخاوي: ۱/ ۲۱۱۔ ۲۱۲)