کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 201
بن عبدالعظیم العنبری البغدادی ۲۴۰ھ، امام خلف بن سالم، امام ابو زرعہ الرازی، امام ابو حاتم الرازی، امام العجلی، امام یعقوب بن سفیان الفسوی، امام احمد بن اسماعیل النحاس ۳۳۸ھ، امام ابن حبان، امام ابن عدی، امام الخلیلی اور قاضی اسماعیل رحمہم اللہ کے اقوال سے مترشح ہوتا ہے، محدث الشریف حاتم بن عارف العونی حفظہ اللہ نے ان جہابذہ ائمۂ کرام کی اصطلاحات اور اقوال ذکر کرنے کے بعد ان کے مدلولات کی بھی نشان دہی کی ہے۔ (المرسل الخفی و علاقتہ بالتدلیس: ۱/ ۴۳۔ ۷۴) بلکہ جوان دونوں (تدلیس اور ارسالِ خفی) کے مابین تفریق کے قائل ہیں یا ان کے کلام سے اس شبہ کو تقویت حاصل ہوتی ہے، انتہائی عمدگی سے ان دلائل کا تجزیہ پیش فرمایا ہے۔ (المرسل الخفی: ۱/ ۷۵۔ ۲۱۶) اس طویل علمی بحث کا خلاصہ آخر میں یوں ذکر کیا کہ ارسالِ خفی کا اطلاق ہر مخفی انقطاع پر ہوتا ہے، اہلِ اصطلاح کے ہاں ارسالِ خفی مستقل مصطلح الحدیث نہیں، بلکہ تدلیس ہی میں داخل ہے، لہٰذا اسے تدلیس سے خارج قرار دینا درست نہیں۔ تدلیس الاسناد کی اس مختصر سی تفصیل کے بعد اب ہم اس کی ذیلی اقسام کی طرف چلتے ہیں، جس میں تدلیس التسویۃ، تدلیس السکوت، تدلیس القطع، تدلیس العطف اور تدلیس الصیغ شامل ہیں۔ ۱۔ تدلیس التسویۃ: مدلس راوی اپنے کسی ایسے ثقہ استاد سے حدیث سنتا ہے، جس نے وہ حدیث ضعیف راوی سے سنی ہوتی ہے، اور وہ ضعیف راوی ثقہ یا صدوق راوی سے اس حدیث کو بیان کرتا ہے۔ مدلس ان دونوں ثقہ راویوں کے درمیان سے ضعیف راوی گرا کر ثقہ کو ثقہ