کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 200
نہیں ہوتا اور بسا اوقات اس کی مروی عنہ سے ملاقات ہی ثابت نہیں ہوتی، سے ایسے ہی صیغوں سے بیان کرتا ہے، جن میں سماع اور عدمِ سماع دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔
اگر یہ مدلسین کوئی ایسا صیغہ استعمال کریں، جو تحدیث یا سماع پر دلالت کرے اور اس میں تأویل کی بھی کوئی گنجائش نہ ہو تو وہ صیغہ جھوٹ ہوگا۔ جس کا مرتکب متروک درجے کا راوی ہوگا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور ان کے ما بعد محدثین نے تدلیس الاسناد کی اس دوسری صورت کو ارسالِ خفی قرار دیتے ہوئے تدلیس سے خارج قرار دیا ہے۔
(النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر: ۲/ ۶۱۴، ۶۲۲۔ ۶۲۴)
مگر معلوم ہوتا ہے کہ ارسالِ خفی بھی تدلیس کی ذیلی قسم ہے۔ مستقل قسم نہیں، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرما رہے ہیں۔
ارسالِ خفی کا تدلیس میں دخول:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے قبل حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ (معرفۃ أنواع علم الحدیث: ۶۶، المطبوع باسم: مقدمۃ ابن الصلاح)، امام نووی رحمہ اللہ (إرشاد طلاب الحقائق: ۱/ ۲۰۵۔ ۲۰۶)، حافظ عراقی رحمہ اللہ (التبصرۃ والتذکرۃ: ۱/ ۱۸۰)، امام ابو الحسن علی بن عبد اللہ الاردبیلی التبریزی رحمہ اللہ ۷۴۶ھ (الکافی في علوم الحدیث، ص: ۳۸۴)، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (اختصار علوم الحدیث، ص: ۵۳، مع شرحہ: الباعث الحثیث) وغیرہ نے اس دوسری صورت کو بھی تدلیس قرار دیا ہے۔
یہی موقف امام احمد، امام یحییٰ بن معین، امام بخاری، امام ابو داود، امام عباس