کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 199
یہ شبہ پیدا ہوتا کہ اس راوی نے تدلیس کی ہے، حالانکہ وہ مجلسِ حدیث میں حدیث کی مکمل سند بیان کرتے تھے ۔
کبار تابعین کے طبقہ میں ارادتاً تدلیس کی شرح انتہائی قلیل تھی، مگر متأخر طبقات میں یہ نسبت بڑھ گئی۔
تدلیس کی مرکزی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: تدلیس الاسناد:
اس کی دو تعریفیں ہیں:
1. راوی کا اپنے استاد سے ایسی احادیث بیان کرنا، جو اس نے اس استاد کے علاوہ کسی اور سے سنی ہیں۔
2. راوی کا اپنے ایسے معاصر سے روایت کرنا، جس سے اس کی ملاقات ثابت نہیں ہوتی اور ایسے صیغوں سے بیان کرنا، جس سے یہ شبہ پیدا ہو کہ راوی نے مروی عنہ سے اس حدیث کی سماعت کی ہے۔
پہلی صورت کی تفصیل یہ ہے کہ راوی نے اپنے کسی شیخ سے چند احادیث بالمشافہ سماعت کی ہوتی ہیں، مگر اس کے ہاں کچھ ایسی بھی احادیث ہوتی ہیں، جنھیں اس شیخ سے بالمشافہ سماعت نہیں کی ہوتیں، بلکہ اس راوی سے سنی ہوتی ہیں، جس نے مدلس کے شیخ سے سنی ہوتی ہیں، وہ اس واسطہ کو گرا کر اپنے شیخ سے براہِ راست ایسے صیغوں سے بیان کرتا ہے، جو صراحتاً اتصال پر دلالت کرتے ہیں اور نہ صراحتاً عدمِ اتصال پر، مگر عرفِ عام میں وہ سماع پر محمول کیے جاتے ہیں۔
اس صورت کے تدلیس ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔
دوسری کی توضیح یہ ہے کہ راوی اپنے ایسے معاصر، جس سے اس نے کچھ سنا