کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 197
چند ضروری اور تمہیدی باتیں عرض کرنے کے بعد ہم جمہور محدثین کے اصل موقف کی راہنمائی کریں گے۔ ان شاء اللہ تدلیس کے لغوی معنی: تدلیس کے لغوی معنی پوشیدگی اور پردہ پوشی کے ہیں۔ اسی سے الدَّلس (دال اور لام کے زبر کے ساتھ) ہے۔ جس کا مطلب ہے: ’’اختلاط النور بالظلمۃ‘‘، یعنی اندھیرے اور اجالے کا سنگم۔ دَلَّسَ البائعُ کے معنی: بائع کا خریدار سے سودے کے عیب کو چھپانا، ہیں۔ مزید تفصیل الصحاح للجوھری: (۲/ ۹۲۷)، لسان العرب لابن منظور (۷/ ۳۸۹)، تاج العروس للزبیدی (۴/ ۱۵۳) میں ملاحظہ فرمائیں۔ اصطلاحی تعریف: اگر راوی اپنے ایسے استاذ جس سے اس کا سماع یا معاصرت ثابت ہے، وہ روایت ’’عَنْ، أنَّ، قَالَ، حَدَّثَ‘‘ وغیرہ الفاظ سے بیان کرے، جسے اس نے اپنے استاد کے علاوہ کسی دوسرے شخص سے سُنی ہے، اور سامعین کو خیال ہو کہ اس نے یہ اپنے استاد سے سنی ہوگی۔ اسے تدلیس کہا جاتا ہے۔ (معرفۃ أنواع علم الحدیث لابن الصلاح، ص: ۶۶) تدلیس کے متعدد محرکات ہیں۔ جن میں سے اکثر قابلِ مذمت ہیں، ان کی تفصیل ملاحظہ ہو: محرکاتِ تدلیس: 1. سند سے ضعیف راوی گرا کر سند کو عمدہ باور کرانا۔ 2. مدلس کے استاد کا ضعیف ہونا۔