کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 196
دوسرا مقالہ: التحقیق والتنقیح في مسئلۃ التدلیس الحمد للّٰه رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء و خاتم المرسلین، وعلیٰ آلٰہ وصحبہ، ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین، أما بعد: علم اصولِ حدیث کے ذریعے سے محدثینِ عظام نے چودہ صدیوں پہلے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہر منسوب بات کی غلطی و صحت کو جانچنے کے لیے ایسے بہترین اصول وضع کیے، جو نہایت مستحکم ہیں، کسی بھی قول کے مستند ہونے کے لیے راویوں کا سلسلۂ إسناد متصل ہونا از بس ضروری ہے اور یہ اتصالِ سند کسی حدیث کے صحیح ہونے کی پہلی شرط ہے، سند میں یہ انقطاع اگر ظاہری ہو یعنی کسی مرحلہ پر راویوں کا سلسلہ منقطع ہو تو اس کو عام علما بھی جان سکتے ہیں، تاہم بعض راویانِ حدیث سند کے مخفی عیب کو دانستہ یا نادانستہ طور پر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے اس طرزِ عمل کو مصطلح الحدیث میں تدلیس سے موسوم کیا جاتا ہے، اس کی متعدد اقسام کی بنا پر اس کا حکم بھی مختلف ہے۔ مگر بعض حضرات جبلِ علم امام شافعی رحمہ اللہ کے قول کو اساس قرار دے کر سبھی مدلسین کی مرویات سے مساوی سلوک کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جس راوی نے بھی زندگی میں صرف ایک بار تدلیس کی تو اس کی ہر معنعن روایت ناقابلِ قبول ہوگی۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ وہ اسے ’’جمہور محدثین‘‘ کا منہج باور کراتے ہیں، جو سرتا سر حقیقت کے منافی ہے۔