کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 194
شیخ کے اقوال جمع کرنے اور انھیں مرتب کرنے کا خاصا اہتمام کیا ہے، یہاں تک کہ اہلِ علم نے امام بخاری رحمہ اللہ کی ذاتی کتب کے بعد جامع ترمذی کو ان کے اقوال کا مرجع قرار دیا ہے، جبکہ یہ شرف حافظ خطابی رحمہ اللہ کی قسمت میں نہیں آسکا۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے جو متابعت ذکر کی ہے وہ مشعر ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو مستحکم سمجھتے تھے نہ کہ ضعیف۔
ثانیاً: حافظ خطابی رحمہ اللہ ناقل ہیں۔ عمومی طور پر جب وہ کوئی قول ذکر کرتے ہیں، اسے حوالے سے مزین کرتے ہیں یا اس کی سند کی نشان دہی کرتے ہیں، جیسا کہ اسی مقام پر بھی انھوں نے امام موسیٰ بن ہارون الحمال اور امام احمد رحمہما اللہ کے اقوال کے ساتھ اہتمام کیا ہے، اس لیے امام ترمذی کی ذکر کردہ تحسین معتبر ہوگی۔
ثالثاً: آپ اوپر پڑھ آئے ہیں کہ امام خطابی رحمہ اللہ نے امام احمد رحمہ اللہ کے حوالے سے بھی تضعیف نقل کی ہے، جبکہ امام عبداللہ بن احمد ناقل ہیں کہ انھوں نے حضرت رافع رضی اللہ عنہ اور حضرت حضیر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو صحیح کہا ہے، ممکن ہے کہ حافظ خطابی کو امام بخاری کے قول کے بارے میں غلط فہمی ہوئی ہو۔
رابعاً: ترمذی کے حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی تحسین درج ذیل اہلِ علم نے بھی ذکر کی ہے۔
1. امام منذری۔ (مختصر سنن أبي داود: ۵/ ۶۵)
2. امام ابن القیم۔ (مختصر سنن أبي داود: ۵/ ۶۴)
3. حافظ عراقی۔ (شرح سنن الترمذي: ۳/ ۱۲۶/ أ، بحوالہ سؤالات الترمذي: ۲/ ۶۹۵)
4. ابن الترکمانی۔ (الجوھر النقي: ۶/ ۱۳۷)
امام بیہقی رحمہ اللہ کی نقلِ تضعیف کی حقیقت یہ ہے کہ شریک کی حدیث پر امام