کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 193
حافظ خطابی کا وہم:
علامہ خطابی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے، انھوں نے امام بخاری کے حوالے سے درج ذیل الفاظ ذکر کیے ہیں:
’’تفرد بذلک شریک عن أبي إسحاق، وشریک یھم کثیراً أو أحیانا‘‘ (معالم السنن للخطابي: ۳/ ۹۶)
’’اس حدیث کو بیان کرنے میں شریک، ابو اسحاق سے منفرد ہے، شریک اکثر و بیشتر یا بسا اوقات وہم کا شکار ہوتا ہے۔‘‘
یہ قول امام ترمذی رحمہ اللہ وغیرہ کی نقل سے متصادم ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ سے اس کی تحسین نقل کی ہے اور بذاتِ خود اسے حسن غریب قرار دیا ہے۔ حافظ خطابی رحمہ اللہ نے امام بخاری کی اس تضعیف کا مرجع ذکر نہیں کیا، ظنِ غالب ہے کہ انھوں نے خود ہی ان کے دو اقوال مختلف مقامات سے جمع کر کے نتیجہ اخذ کیا کہ انھوں نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا پہلا قول اسی حدیث کے متعلق ہے:
’’حدیث شریک الذي تفرد بہ عن أبي إسحاق‘‘(علل الترمذي: ۱/ ۵۶۴)
’’شریک، ابو اسحاق سے بیان کرنے میں منفرد ہے۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ کا دوسرا قول شریک کے بارے میں ہے: ’’کثیر الغلط‘‘ (العلل الکبیر، ص: ۱۰۱) جسے حافظ خطابی نے ’’یھم کثیراً‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
حافظ خطابی رحمہ اللہ کا ان دونوں اقوال سے حدیث ضعیف کا نتیجہ اخذ کرنا بعید از صواب معلوم ہوتا ہے، کیونکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ سے اس حدیث کی تحسین نقل کی ہے۔ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے تلمیذ ہیں، انھوں نے اپنے