کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 192
چنانچہ وکیع کا بیان ہے: ’’ما کتبت عن شریک بعد ما ولي القضاء، فھو عندي علی حدۃ‘‘ (الجعدیات: ۲۴۲۹) ’’میں نے شریک کے قاضی بننے کے بعد ان سے کچھ نہیں لکھا، لہٰذا وہ (احادیث) میرے نزدیک درست ہیں۔‘‘ اسود کے بارے میں فتح الباري (۴/ ۴۲۲) ملاحظہ ہو۔ تیسرا قرینہ: شریک راوی کی روایت ابو اسحاق سے عمدہ ہوتی ہے، امام مروذی رحمہ اللہ نے امام احمد رحمہ اللہ سے ابو اسحاق کے اثبات تلامذہ کی بابت سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: شعبہ اور سفیان، پھر فرمایا: ’’شریک حسن الروایۃ عن أبي إسحاق‘‘(العلل و معرفۃ الرجال للمروذي، فقرۃ: ۲۳، ۲۴) ’’شریک، ابو اسحاق سے بیان کرنے میں حسن الروایہ ہے۔‘‘ بایں وجہ یہ مستبعد نہیں کہ امام احمد کی طرح امام بخاری کی رائے بھی یہی ہو۔ واللہ اعلم۔ چوتھا قرینہ: شریک کو اگرچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے، مگر اس کی سند ذکر کرنے کے ساتھ ہی عقبہ کی متابعت بھی ذکر کر دی، جو مشعر ہے کہ وہ شریک کے سوءِحفظ کا دفاع اس مقام پر کر رہے ہیں کہ ابو اسحاق سے اس روایت کی اصل موجود ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے ہاں قیس بن ربیع کی متابعت معتبر نہیں، بنا بریں انھوں نے اس متابع کو یہاں پیش نہیں کیا۔