کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 191
کیا کوئی دعویٰ کر سکتا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن غریب‘‘ سے شریک کا محض تفرد مراد لیا ہے؟ جواب یقینا نفی میں آئے گا۔ ثالثاً: شیخ ابن ابی العینین نے ہمارے موقف کی تائید کی ہے۔ (القول الحسن، ص: ۱۴۸) امام بخاری کے ہاں اس حدیث کی قبولیت کے قرائن: یہاں پر سوال یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو حسن کیوں قرار دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے ہاں خارجی قرائن سے اس حدیث (شریک کی روایت) کا صحیح ہونا ثابت ہوچکا ہے۔ پہلا قرینہ: اس حدیث کو شریک سے بیان کرنے والی ایک جماعت ہے، جن میں متعدد شہروں کے راویان شامل ہیں، ان میں سے اکثر و بیشتر کوفی ہیں، کچھ بصری، بغدادی اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہیں، جو ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ ہیں، اور وہ سبھی اس حدیث کو ایک ہی انداز سے بیان کرتے ہیں، جن سے معلوم ہوا کہ شریک نے یہ روایت صحیح ضبط کی ہے، ان کی سوءِحفظ کی کمزوری یہاں در نہیں آئی، جیسا کہ عام طور پر ایسے راویان کی حدیث میں اضطراب پایا جاتا ہے، کوئی شاگرد کس انداز سے روایت کرتا ہے اور کوئی کس ڈھنگ سے کمی و بیشی کرتا ہے۔ دوسرا قرینہ: شریک کے تغیر سے قبل بیان کرنے والے تلامذہ میں وکیع بن جراح اور اسود بن عامر کا نام بھی ہے۔ ان دونوں کی روایت بالترتیب مسند أحمد (۳/ ۴۶۵، ۴/ ۱۴۱) میں مذکور ہے۔