کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 190
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ کے منہج سے بخوبی واقف تھے، ان کی تحقیق میں امام بخاری رحمہ اللہ نے شریک کی اس روایت کو حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔
شیخ ربیع مدخلی کی رائے کے مطابق حسن سے مراد حسن لغیرہ نہیں، بلکہ غرابت اور تفرد مراد ہے، کیونکہ شریک اس حدیث کو ابو اسحاق سے بیان کرنے میں منفرد ہیں اور انھوں نے یہ انوکھی حدیث بیان کی ہے، وہ قطعی طور پر اس حسن سے اصطلاحی معنی مراد نہیں لے رہے۔ (تقسیم الحدیث، ص: ۴۷)
بلاشبہ متأخر عصور کی طرح اس زمانے کی اصطلاحات میں اتنا انضباط نہ تھا، متقدمین کی اصطلاحات میں وسعت تھی، جیسا کہ ہم اس مقالے کے بالکل ابتدائی صفحات پر رقم کر چکے ہیں۔ اس لیے ہر حسن سے مراد حسن لغیرہ لینا درست نہ ٹھہرا، لیکن اس کا یہ مفہوم بھی درست نہیں کہ حسن سے مراد ہی ضعیف ہے۔
ثانیاً: امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تحسین سے شریک کی اجنبیت اور تفرد مراد نہیں لیا، کیونکہ وہ ان دونوں علتوں کو بایں الفاظ میں بیان کر چکے ہیں:
1. ’’لا أعرفہ من حدیث أبي إسحاق إلا من روایۃ شریک‘‘(ترمذي: ۱۳۶۶)
2. ’’ھو حدیث شریک الذي تفرد بہ عن أبي إسحاق‘‘(العلل الکبیر: ۱/ ۵۶۴)
اس لیے حسن سے ان کی مراد حسن حدیث ہے نہ کہ راوی کی کیفیت بیان کرنا۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی اس عبارت سے امام ترمذی رحمہ اللہ بھی یہی سمجھے ہیں۔ انھوں نے اس حدیث کو ’’حسن غریب‘‘ کہا ہے۔ (ترمذي، حدیث: ۱۳۶۶) ’’حسن‘‘ سے مراد امام بخاری رحمہ اللہ والی حسن ہے اور ’’غریب‘‘ اشارہ ہے شریک کے تفرد کے۔