کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 189
سعید فرمانے لگے: تو اپنے بھائی کی محتاجی رفع کر (کچھ معاوضہ لیے بغیر زمین دے دے) یا کرنسی کے عوض زمین کرایہ پر دے دے (زمین کے بدلے میں پیدا وار کا کوئی حصہ نہ لے)۔ (سنن أبي داود، ۳۳۹۹)
اس حدیث کی سند صحیح ہے، اسی حدیث سے امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ ، امام طحاوی رحمہ اللہ وغیرہما نے شریک کی حدیث کو تقویت دی ہے۔
(العلل: ۱۴۲۷، مشکل الآثار: ۷/ ۹۸)
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے شریک کی روایت کی جو تحسین کی ہے، اس سے ان کی مراد کیا ہے؟
حسن سے مراد حسن لغیرہ ہے:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقم زن ہیں:
’’وتفرد شریک بمثل ھذا الأصل عن أبي إسحاق مع کثرۃ الرواۃ عن أبي إسحاق، مما یوجب التوقف عن الاحتجاج بہ، لکنہ اعتضد بما رواہ الترمذي۔ أیضاً۔ من طریق عقبۃ ابن الأصم، عن عطاء، عن رافع رضي اللّٰه عنہ، فوصفہ بالحسن لھذا، وھذا علی شرط القسم الثاني‘‘
’’اس جیسی حدیث میں شریک کا ابو اسحاق سے تفرد، باوجود کہ روایان کی ایک جماعت اسحاق سے بیان کرتی ہے، غمازی ہے کہ اس حدیث سے احتجاج میں توقف لازمی ہے، لیکن وہ ترمذی کی روایت جو عقبہ بن الأصم، عن عطا، عن رافع کی سند سے ہے، تقویت حاصل کرتی ہے۔ بنا بریں امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے اور یہ دوسری قسم (حسن لغیرہ) کی شرط پر ہے۔‘‘ (النکت: ۱/ ۴۲۹)