کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 187
نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، بسا اوقات کہتے ہیں: مجھے میرے چچا (ظہیر رضی اللہ عنہ ) نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ہے۔‘‘(معالم السنن: ۳/ ۹۵)
قارئینِ عظام! آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ ’’ألوان‘‘ سے امام احمد رحمہ اللہ کا مقصود حضرت رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ضعیف قرار دینا نہیں بلکہ وہ تو ’’کلھا أحادیث صحاح‘‘ قرار دے رہے ہیں، لہٰذا امام خطابی رحمہ اللہ کے اس دعویٰ کی مطابقت دلیل سے نہیں، لہٰذا وہ غیر معتبر ہے۔
4. امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے ایک صحیح سند سے حدیث ذکر کی ہے، جو ابھی ’’صحیح شاہد‘‘ کے تحت آرہی ہے، اس کے بعد فرمایا:
’’ھذا یقوي حدیث شریک عن أبي إسحاق۔۔۔‘‘
’’یہ (صحیح سند) شریک کی (ضعیف) حدیث کو تقویت دیتی ہے۔‘‘(العلل: ۱۴۲۷)
5. امام طحاوی رحمہ اللہ نے بھی شریک کی سند کو صحیح حدیث سے تقویت دی ہے۔(بیان شرح مشکل الآثار: ۷/ ۹۸)
6. امام ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی پُرزور انداز میں اسے ضعیف کہنے والوں کا تعاقب کیا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ ، ترمذی رحمہ اللہ سے اس کی تحسین نقل کی ہے، نیز فرمایا کہ امام ابو داود رحمہ اللہ نے سنن میں ذکر کر کے اسے ضعیف نہیں کہا، لہٰذا یہ حدیث ان کے نزدیک حسن ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ اور امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ نے اس سے استدلال کیا ہے، اس کا شاہد بھی موجود ہے، ان کی مراد حضرت سعید بن المسیب والی حدیث ہے۔ (تھذیب سنن أبي داود: ۵/ ۶۴)
7. محدث احمد شاکر رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔(تحقیق کتاب الخراج لیحییٰ بن آدم، ص: ۹۴)