کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 186
ہے، کبھی وہ کہتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو بٹائی پر کاشت کرنے سے منع کیا ہے۔ (یعنی زمین کا مالک کسی شخص کو اپنی زمین بونے کے لیے دے اور اس سے پیداوار کا حصہ مقرر کر لے)۔
’بسا اوقات وہ ظہیر (بن رافع الانصاری الاوسی) عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔ بسا اوقات وہ کہتے ہیں: ’’جو چھوٹی نہر کی پیداوار ہو۔
یہ سبھی احادیث صحاح ہیں مگر حضرت رافع سے بہ اندازِ مختلف بیان کی جاتی ہیں۔‘‘ (مسائل أحمد: ۳/ ۱۲۱۵۔ ۱۲۱۶، فقرۃ: ۱۶۷۳)
امام احمد رحمہ اللہ کا اس حدیث سے استدلال ان کے دوسرے شاگرد امام اسحاق بن منصور الکوسج نے بھی ذکر کیا ہے۔ (مسائل أحمد و ابن راھویہ: ۲/ ۳۴، فقرۃ: ۱۸۹۰)
اس بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ امام احمد کے نزدیک حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیح ہے اور وہ حدیث جو حضرت رافع رضی اللہ عنہ اپنے چچا حضرت ظہیر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں وہ بھی صحیح ہے۔ سوائے ’’زرعہ بغیر إذنھم‘‘ کے الفاظ کے۔
حضرت ظہیر رضی اللہ عنہ کی حدیث: بخاري، حدیث (۲۳۳۹) مسلم، حدیث (۱۵۴۸) مسند أحمد (۲۸/ ۵۱۳) میں ہے۔
امام احمد نے اس روایت کو ضعیف نہیں کہا:
حافظ خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے حضرت رافع کی حدیث ضعیف قرار دی ہے، انھوں نے کہا ہے: اس کے متعدد انداز ہیں، اس قول سے ان کا مقصود یہ ہے کہ وہ اس حدیث کا اضطراب اور رافع سے روایات میں اختلاف ذکر کرنا چاہتے ہیں، بسا اوقات وہ (رافع) فرماتے ہیں کہ میں